السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ارکانِ عاملہ کے تمام احباب بفضلِ تعالیٰ بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ماہِ مبارک کے آخری عشرے کی تمام خصوصیات اور فضائل کو مسنون طریقے پر حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ دیگر احوال یہ ہے کہ اوپر جو ایپس (Apps) نظر آ رہی ہیں، آپ شاید سمجھیں کہ یہ بہت مفید اور کارآمد ہیں اور یہ مسلمانوں کے تیار کردہ ہیں۔ اگر آپ ایسا سمجھ رہے ہیں، تو یہ مکمل طور پر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ ایپس درحقیقت قادیانیوں کی تخلیق کردہ ہیں، جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ افراد خود کو احمدیہ مسلم کمیونٹی، احمدیہ مسلم جماعت، یا احمدیہ مسلم مشن کے نام سے متعارف کراتے ہیں اور بھارت سمیت دنیا بھر میں سرگرم ہیں۔ اوپر 20 ایپس کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں سے ہر ایک کی اپنی ایک تاریخ اور پس منظر ہے۔ یہاں "Ask Islam" ایپ پر چند ضروری باتیں پیش کی جا رہی ہیں، باقی ایپس کے بارے میں ان شاء اللہ آئندہ وضاحت کی جائے گی۔ "Ask Islam" ایپ کیا ہے؟ یہ ایپ دراصل ایک دارالافتاء کی شکل میں کام کر رہی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، دارالافتاء کا کام قرآن و حدیث کی روشنی میں سوالات کے جوابات دینا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرز پر یہ قادیانی ایپ بھی اسلام کے نام پر فتاویٰ جاری کرتی ہے، لیکن ان کے جوابات قادیانی عقائد پر مبنی ہوتے ہیں، جو سراسر گمراہی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس ایپ پر صرف قادیانی سوالات کرتے ہیں؟ نہیں! بلکہ زیادہ تر مسلمان ہی اس ایپ سے رجوع کرتے ہیں، کیونکہ وہ اسے ایک مستند اسلامی ایپ سمجھ بیٹھے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص وراثت یا وصیت سے متعلق سوال پوچھتا ہے، تو اسے قادیانی عقائد کے مطابق جواب دیا جاتا ہے، اور بدقسمتی سے وہ اسے درست سمجھ کر قبول کر لیتا ہے۔ نوجوانوں کی لاعلمی اور خطرہ ہمارے نوجوانوں کی ایک عمومی عادت یہ بن چکی ہے کہ وہ علمائے کرام اور ائمہ مساجد سے رجوع کرنے کے بجائے "امام گوگل" پر بھروسہ کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بچے کے پیدا ہونے پر اس کا اسلامی نام رکھنے کے لیے علماء یا مساجد کے امام سے مشورہ لینے کے بجائے، گوگل یا آن لائن ایپس سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں روایتی اور مستند اسلامی نام جیسے عبداللہ، عبدالرحمٰن، فاطمہ اور عائشہ کو دقیانوسی سمجھا جانے لگا ہے۔ اس مسئلے پر بھی ان شاء اللہ کسی اور موقع پر تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔ یہ نوجوان مسلمانوں کے گھروں میں رہتے ہوئے بھی ذہنی طور پر قادیانیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں، لیکن انہیں خود اس بات کا اندازہ نہیں، اور ان کے والدین بھی اس خطرے سے بے خبر ہیں۔ یہ صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے! قافلے کا لٹ جانا نقصان دہ تو ہے ہی، لیکن لٹ جانے کا احساس تک نہ ہونا سب سے بڑا نقصان ہے۔ قادیانیوں کی مکاری اور تدبیر قادیانی اپنے ایپس کے نام "قادیانی ایپس" یا "احمدیہ ایپس" رکھنے کے بجائے "الاسلام" جیسے ناموں سے انہیں لانچ کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں کو دھوکہ دے سکیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ: ائمہ مساجد جمعہ کے خطبات، طاق راتوں کے دروس اور عیدگاہ میں ہونے والے اجتماعات میں اس فتنے کے بارے میں مسلمانوں کو خبردار کریں۔ عوام کو بتایا جائے کہ یہ ایپس اسلام کے نام پر قادیانیت کا زہر پھیلانے کا ایک ذریعہ ہیں۔ مسلمان ان ایپس کے استعمال سے گریز کریں اور مستند اسلامی اداروں سے رجوع کریں۔ یہ نہ سمجھیں کہ قادیانی ہمارے درمیان نہیں ہیں، بلکہ ان کا زہریلا پروپیگنڈا ہر مسلمان کے جیب میں "ایپس" کی صورت میں موجود ہے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ اس فتنے کی حساسیت اور سنگینی کو سمجھیں اور فوری طور پر اس کے سدِباب کی تدابیر اختیار کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی حفاظت کی توفیق عطا فرمائے اور اس مبارک خدمت میں زندگی کی آخری سانس تک اخلاص اور استقامت عطا کرے۔ آمین۔ دعاؤں کا طلبگار، عبدالرحمٰن، میل وشارم، صوبہ تملناڈو ۲۲ رمضان المبارک ۱۴۶۶ھ 23 مارچ 2025، دوپہر 1 بجے

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی ۔ اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے ۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکہ چلتا تھا ۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کر کے انھیں بھی فتح کر لیا تھا ۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہو چکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے ۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کر لینی چاہیے ۔ یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا ۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکہ جاری کر کے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کر دیتا اور پھر وہ وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کر کے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی ۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا ۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی ۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے ۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گو یا فراموش کر بیٹھا تھا ۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہو گیا ۔ اس نے مزید لشکر تیار کر کے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہو گیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے ، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کر دیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کر رہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ جنگ میں کام یاب ہو سکتا ہے ۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں طلب کیا ۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کر دیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں آکر خود ملے ۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہو گیا ۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے ۔ بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہو چکا تھا ۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ، تو بزرگ نے کہا ، " اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے ، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے ۔ یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا ۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہو سکتا۔ جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کر کے قانع ہو جائے ۔