کھانا کس نے بھیجا تھا؟

ایک دل گداز واقعہ امام قرطبی ؒ فرماتے ہے کہ قبیلہ اشعریین کے لوگ جب ہجرت کرکہ مدینہ منورہ پہنچے۔ تو انکا تمام سامان جو کھانے پینے کا تھا ختم ہوچکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ایک آدمی رسول اللہﷺ کی خدمت میں بھیجا کہ ہمارے کھانے پینے کا کوئی انتظام کیا جائے۔ وہ آدمی جب رسولﷺ کے گھر کے دروازے پہ پہنچا, تو رسول اللہ کی آواز آرہی تھی جو قرآن پاک کی اس آیت: *وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا* کی تلاوت کررہے تھے۔ یہ آیت سنتے ہی اسکے دل میں خیال آیا کہ جب اللہ تعالی نے ہر ایک کے رزق کا ذمہ لیا ہے تو پھر ہم تو انسان ہیں جانوروں سے گئے گزرے نہیں۔ وہ ضرور ہمارے لئے رزق کا بندوبست کرے گا۔ وہ وہی سے واپس آگیا اور رسول اللہﷺ کو کچھ نہیں بتایا۔ ساتھیوں کے پاس پہنچا تو سب کو بلند آواز سے کہا: ساتھیوں خوش ہوجاؤ اللہ کی مدد آنے والی ہے وہ سمجھے کہ یہ بندہ چونکہ رسول اللہ کے پاس عرض کرنے گیا تھا اسلئے رسول اللہ نے کھانا بھیجنے کا وعدہ کرلیا ہوگا۔ لہذا وہ خوشی خوشی اپنے کاموں میں لگ گئے۔ اور مطمین ہوگئے۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ دو بندے ایک بڑا سا برتن لے کر آئے جو گوشت اور روٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ دو بندے کھانا دے کر چلے گئے سب نے شکم سیر ہوکر خوب کھایا لیکن اب بھی کافی سارا کھانا بچ گیا تھا۔ انہوں نے سوچا کہ یہ بچا ہوا کھانا رسول اللہﷺ کی خدمت میں واپس بھیج دیں۔ تاکہ بوقت ضرورت استعمال ہوسکے۔. دو آدمی کھانا لیکر نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ آپکا بھیجا ہوا کھانا بہت مزے دار تھا۔ رسولؐ نے جب سنا تو فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا تھا۔ ایک بندے نے کہا یا رسول اللہ ہم بہت بھوکے تھے ہم نے بھوک کی حالت میں آپکی طرف اپنا بندہ بھیجا تھا کہ ہمیں تھوڑا کھانا عنایت فرمائے۔ اتنے میں وہ بندہ بھی آیا اس نے کہا یا رسول اللہ! جب میں آیا تو آپ قرآن پاک کی آیت: وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا پڑھ رہے تھے لہذا میں نے سوچا کہ جو ذات جانوروں کے رزق کی ذمہ داری اٹھا رہی ہے وہ ذات ہماری بھی ذمہ دار ہے۔ اس لیے میں آپکو کچھ بتائے بغیر چلا گیا۔ تب رسول اللہ ﷺ مسکرائے اور فرمایا: یہ رزق میں نے نہیں بلکہ اس پرودگار نے بھیجا تھا جو ہر شے کے رزق کا ذمہ دار ہے۔ ___________📝📝📝___________ منقول - انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

شیشے سے دیوار تک

شیشے سے دیوار تک

ایک خاتون کہتی ہیں: ایک دن میں اپنے گھر کی صفائی کر رہی تھی، اتنے میں میرا بیٹا آیا اور شیشے سے ایک شاہکار (تحفہ) گرا دیا اور وہ ٹوٹ گیا۔ میں اس سے بہت ناراض تھی کیونکہ یہ بہت مہنگا تھا، میری ماں نے مجھے دیا تھا، میں اسے پسند کرتی تھی اور اسے رکھنا چاہتی تھی۔ میں نے غصے سے اسے بلایا اور کہا۔ (میرا رب ایسی دیوار گرائے جو تمہاری ہڈیاں توڑ دے) وہ خاتون کہتی ہیں: سال گزر گئے، میں اس پکار اس بدعا کو بھول گئی، مجھے اس کی پرواہ نہیں تھی اور نہ ہی مجھے معلوم تھا کہ وہ آسمان پر چڑھ گئی ہے! میرا بیٹا اپنے بھائیوں بہنوں کے ساتھ پلا بڑھا اور وہ میرے دل میں میرے بیٹوں میں سب سے زیادہ پیارا تھا۔ میں اس کو ہوا لگنے سے بھی ڈرتی تھی وہ میرے لیے اپنے بھائیوں اور بہنوں سے زیادہ نیک تھا۔ اس نے تعلیم حاصل کی، گریجویشن کیا، ملازمت حاصل کی، اور میں اس کے لیے بیوی تلاش کر رہی تھی۔ اس کے والد کی ایک پرانی عمارت تھی، اور وہ اسے گرا کر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ میرا بیٹا اپنے والد کے ساتھ عمارت کی طرف گیا، مزدور منہدم کرنے کی تیاری کر رہے تھے، ادھر اپنے کام کے درمیان میرا بیٹا اپنے والد سے دور چلا گیا اور کارکن نے اسے نوٹس نہیں کیا تو دیوار اس پر گر گئی!! میرا بیٹا چیخا اور پھر اس کی آواز غائب ہوگئی۔ کارکن رک گئے اور سب پریشان اور خوف زدہ ہو گئے!! انہوں نے بڑی مشکل سے اس سے دیوار ہٹائی، ایمبولینس آئی، اس کا جسم لے جانے کے قابل بھی نہیں بچا تھا وہ شیشے کی طرح گر کر ٹوٹ چکا تھا، انہوں نے اسے بڑی مشکل سے اٹھایا اور انتہائی نگہداشت میں منتقل کیا!! اور جب اس کے والد نے مجھے خبرکی تو میں بے ہوش ہو گئی اور جب مجھے ہوش آیا تو گویا اللہ تعالیٰ نے میری آنکھوں کے سامنے وہ گھڑی بحال کر دی ہو جس میں میں نے بچپن میں کئی سال پہلے اس کے لیے بددعا کی تھی اور مجھے وہ بددعا یاد آ گئی۔ میں روتی رہی اور روتی رہی یہاں تک کہ میں دوبارہ ہوش کھو بیٹھی، جب ہسپتال میں مجھے افاقہ ہوا، تو میں نے اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لیے کہا؟ میں نے اسے دیکھا، اور کاش میں نے اسے اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا! ان لمحوں میں دل کی دھڑکن رک گئی اور میرے بیٹے نے آخری سانس لی۔ میں نے روتے ہوئے کہا: کاش وہ دوبارہ زندہ ہو جائے، گھر کے تمام فن پاروں کو توڑ دے، بس میں اسے نہ کھووں۔ کاش میں گونگی ہوجاتی اور اس کو بد دعا نہ دیتی۔ کاش کاش کاش، لیکن کاش لفظ کا وقت پورا ہو چکا تھا! ایک شخص عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ کے پاس اپنے بیٹے کی نافرمانی کی شکایت کرنے آیا!! ابن مبارک نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اس کے لیے بددعا کی؟ اس نے کہا: ہاں اس نے کہا: جاؤ، تم نے ہی اسے خراب کر دیا ہے۔ _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔