پاگل ٹیکسی ڈرائیور —(ایک خاموش ہیرو کی کہانی)

ایمرجنسی وارڈ کی گہما گہمی میں ایک اجنبی داخل ہوا۔ کندھوں پر وقت کا بوجھ، ہاتھوں میں ایک بے ہوش عورت، اور پیچھے دو بچے، جن کے چہروں پر خوف اور آنکھوں میں نمی تھی۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھا، دل پر ہاتھ رکھا اور سرد لہجے میں بولا، "ہارٹ اٹیک ہے۔ فوری علاج ضروری ہے، ورنہ بچنا مشکل ہے۔" یہ سن کر بچے ماں سے لپٹ کر رونے لگے۔ وہ اجنبی— ایک پرانے کپڑوں میں ملبوس بوڑھا شخص— کبھی عورت کی طرف دیکھتا، کبھی بچوں کی طرف، اور کبھی ڈاکٹر کی آنکھوں میں امید ڈھونڈنے لگتا۔ ڈاکٹر نے نرمی سے پوچھا، "کیا لگتی ہیں یہ آپ کی؟" اس نے سر جھکا کر آہستہ کہا، "کچھ نہیں… میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ سڑک کنارے پڑی ملی… بچے رو رہے تھے… دل نہ مانا… بس لے آیا۔" پھر وہ جیب میں ہاتھ ڈال کر چند مڑے تڑے نوٹ نکالے اور ڈاکٹر کے میز پر رکھ دیے، "یہی ہے میرے پاس… باقی اللہ کرے گا۔" ڈاکٹر نے نوٹ دیکھے اور ہلکا سا مسکرا کر کہا، "بابا جی، یہ تو بہت کم ہیں۔ علاج مہنگا ہے…" بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور ہار ماننے والا نہ تھا۔ دیواروں کو دیکھتے، آسمان کی طرف نظریں اٹھائے، اس کے چہرے پر یکدم ایک روشنی سی جاگی۔ "ڈاکٹر صاحب! آپ علاج شروع کریں۔ یہ لیجیے میری گاڑی کے کاغذات، میں ابھی پیسے لے کر آتا ہوں۔" یہ کہہ کر وہ تیزی سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد دو اجنبی مردوں کو ساتھ لے کر واپس آیا۔ ہاتھ میں نقد رقم تھی، اور آنکھوں میں شکر کا سا نور۔ "ٹیکسی بیچ دی ہے۔ پیسے لے آئیے، بس اس کی جان بچا لیجیے۔" پاس کھڑا ایک نوجوان حیرت سے پوچھ بیٹھا، "یہ عورت آپ کی کیا لگتی ہے؟" بوڑھا مسکرایا، "کچھ بھی نہیں۔ لیکن دل کہتا ہے کہ کچھ تو رشتہ ہے… جو مجھے اپنی ٹیکسی سے زیادہ اس کی زندگی عزیز لگا۔ ٹیکسی تو پھر مل جائے گی، مگر اگر یہ مر گئی تو یہ بچے جیتے جی مر جائیں گے۔ اور قیامت کے دن میں رب کو کیا منہ دکھاؤں گا؟" پاس کھڑے خریدار اب خاموش تھے۔ ایک نے آہستہ سے بولا، "اپنے پیسے واپس رکھو بابا، ٹیکسی بھی تمہاری اور نیکی کا اجر بھی۔ ہم علاج کے پیسے دیں گے۔" دوسرا بھی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے بولا، "ہم سودے کے لیے آئے تھے، نیکی مل گئی۔ ستر گنا منافع ملا ہے۔" وہ پیسے میز پر رکھ کر چلے گئے، اور جاتے جاتے کہا، "ڈاکٹر صاحب، اگر اور ضرورت ہو تو کال کیجیے، یہ ہمارا کارڈ۔" بوڑھا وہیں کھڑا، نم آنکھوں سے ان کے قدموں کو جاتا دیکھتا رہا، اور پھر دھیرے سے کہہ اٹھا: "بابو… اللہ کو میری ٹیکسی پسند نہیں آئی… نیکی پیسے والوں کے نصیب میں چلی گئی… اور میں؟ میں تو پھر خالی ہاتھ رہ گیا۔" مگر شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ جو ہاتھ خالی ہوتے ہیں، وہی آسمان کی طرف سب سے پہلے اٹھتے ہیں… اور جو دل نیکی سے بھر جائے، اس کا نصیب کبھی خالی نہیں ہوتا۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو رحْـمٰن کہنا جائز نہیں :

اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کو رحْـمٰن کہنا جائز نہیں :

----------------------------------------- "رحْـمٰن" کا لفظ اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ حرام ہے ـ اگر کوئی شخص کسی انسان کو رحْـمٰن کہے تو یہ شرک ہے، کیوں کہ اللہ تبارک و تعالٰی کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت اتنی وسیع ہو،لٰہذا کسی اور کو رحمن یا اَلرَّحْـمٰن کہنا جائز نہیں ـ اسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ آج کل ہمارے معاشرے میں جو غلط رواج پڑ گیا ہے کہ کسی کا نام اگر عبدالرحمن ہے تو اس کو مخفف ( abbreviate) کرکے رحمن صاحب! کہہ دیا جاتا ہے،یہ بہت غلط بات ہے ـ رحمن کا لفظ اللہ تبارک و تعالٰی کی ذات کے علاوہ کسی اور کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا،لٰہذا اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہے تو اس کا نام پورا عبدالرحمن ہی لینا چاہیے، صرف رحمن کہہ کر اس کو خطاب کرنا یا اس کا حوالہ دینا درست نہیں اور اندیشہ ہے کہ غیر ارادی طور پر خدانخواستہ یہ انسان کو کہیں شرک کے قریب نہ لے جائے ـ اللہ تعالٰی اس سے ہم سب کو بچائے ـ لہذا اس سے بہت زیادہ بچنے کی ضرورت ہے ـ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے وہ نام یا وہ صفات جو صرف اللہ تعالٰی کے ساتھ خاص ہیں،جیسے الغفار،القہار،الخالق وغیرہ،اُن میں بھی یہ احتیاط رکھنی چاہیے، مثال کے طور پر اگر کسی کا نام عبدالخالق ہو تو اسے صرف خالق کہہ کر بلانا درست نہیں ہے ـ رحیم کا لفظ البتہ اس معاملے میں رحمن سے مختلف ہے،کیوں کہ رحیم کے معنٰی ہوتے ہیں جس کی رحمت مکمل اور پوری ہو ـ چونکہ یہ وصف کسی انسان میں بھی اللہ تعالٰی کی تخلیق کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ جب کوئی انسان کسی انسان کے ساتھ رحم کا معاملہ کرے تو مکمل رحم کا معاملہ کرے،لٰہذا رحیم کا لفظ اللہ تعالٰی کے علاوہ کسی فرد کے لیے استعمال کرنا جائز ہے ـ خود قرآن کریم نے کہا ہے : لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّـمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْـمٌ ● ترجمہ: لوگو تمہارے پاس ایک ایسا رسول آیا ہے جو تمہی میں سے ہے،جس کو تمہاری ہر تکلیف بہت گراں معلوم ہوتی ہے،جسے تمہاری بھلائی کی دُھن لگی ہوئی ہے،جو مومنوں کے لیے انتہائی شفیق،نہایت مہربان ہے ـ یہاں پر حضور نبی کریم ﷺ کو رحیم فرمایا گیا ہے،جس کا مطلب ہے کہ آپ رحم کرنے والے ہیں اور آپ کی رحمت جس پر بھی ہے پوری ہے،لٰہذا اس سے ثابت ہوا کہ کسی انسان کے لیے بھی رحیم کا لفظ استعمال ہوسکتا ہے،اگرچہ اس کا صحیح اور حقیقی مصداق اللہ تعالٰی ہی ہیں،لیکن اپنے لغوی معنی میں اس کو غیرُاللہ کے لیے استعمال کرنا بھی جائز ہے ـ (ماہنامہ البلاغ جنوری 2024 ص نمبر ۱۳،۱۴)