نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت شوہر : والد : نانا : بیٹا : بھائی : خسر : بھتیجا

نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت شوہر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہت ہی محبت سے پیش آتے تھے ۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کیلئے سب سے بہتر ہوں“ ایک مرتبہ آپ اپنے گھر تشریف لائے اس وقت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پیالے میں ، پانی پی رہی تھیں ۔۔۔ آپ نے دور سے فرمایا.. حمیرا ! میرے لئے بھی کچھ پانی بچا دینا ... ان کا نام تو عائشہ تھا. لیکن نبی علیہ السلام ان کو محبت کی وجہ سے حمیرا فرماتے تھے .. ( پیار کا نام رکھنا بھی سنت ہے ) نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت والد: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا مدینے میں آپ کے مکان سے ذرا فاصلے پر رہتی تھیں۔ فرمایا: لخت جگر ! تم بہت دور رہتی ہو۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں تمہیں اپنے قریب بلالوں۔ حضرت حارث کو یہ بات معلوم ہوئی تو عرض کیا: میرا جو مکان پسند ہو حاضر ہے۔ آپ نے حارث کو دُعائیں دیں اور پھر اپنی لخت جگر کو اپنے قریبی مکان میں بلا لیا۔ نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت بھائی: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ باندیاں پیش کی گئیں تو ان میں ایک باندی شیما دیر تک ٹکٹکی باندھے آپ کو دیکھتی رہیں، پھر بولیں جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں تمہاری رضاعی (یعنی دودھ شریک) بہن شیما ہوں، آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے ... آپ نے اپنی چادر مبارک اپنے ہاتھ سے بچھائی، بڑی بہن کو عزت کیساتھ بٹھایا، کچھ دیر باتیں کیں ، خوشی سے آپ کا چہرہ دمک رہا تھا۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم بحیثیت نانا: حسنین رضی اللہ عنہما نانا ( نبی علیہ السلام) کے پاؤں مبارک پر پاؤں رکھے کھڑے تھے ... آپ نے دونوں کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا بیٹو! اور اوپر چڑھ آؤ... وہ اوپر چڑھتے چڑھتے آپ کے سینے پر چڑھ آئے ... نانا جان نے پیار سے نواسے کا منہ چوما ... اور خدا سے التجا کی پروردگار! میں ان سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان سے پیار کر۔ نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم بحیثیت بیٹا: نبی علیہ السلام کے پاس ایک بوڑھی عورت آئی، پھر نہایت عزت کیساتھ اس بوڑھی خاتون کو بٹھایا ... ایک صحابی نے یہ دیکھا تو پوچھا، یہ کون خاتون ہیں؟ لوگوں نے بتایا یہ قابل احترام خاتون حلیمہ سعدیہ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور دودھ پلایا تھا ... نبی کریم صلی الہ علیہ سلم بحیثیت خسر: ایک بار حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: آپ اپنی بیٹی اور اپنے داماد دونوں میں سب سے زیادہ کس سے محبت کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”تم سے زیادہ مجھے فاطمہ محبوب ہے اور فاطمہ سے زیادہ تم مجھے عزیز ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت بھتیجا: غزوہ بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا عباس قید ہو کر آئے ... اُن کے ہاتھ پاؤں رسی اور زنجیروں سے جکڑے تھے، ان کے کراہنے کی آواز رحم دل بھتیجے کے کان میں پہنچ رہی تھی، آپ بے چینی میں بار بار کروٹیں بدل رہے تھے۔ صحابہ سمجھ گئے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی کراہوں نے آپ کو بے چین کر رکھا ہے۔ لوگوں نے عباس کے بندھن ڈھیلے کر دیئے۔ ان کے درد میں کمی آئی۔ کراہیں بند ہوئیں، تو رحمت دو عالم کو بھی آرام ملا اور آپ سو گئے ۔ ( بکھرے موتی ) (کتاب : ماہنامہ محاسن اسلام ستمبر۔ صفحہ : ۲۳۔ ناقل: اسلامک ٹیوب پرو ایپ)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

آخرت میں اللہ کی معرفت ہی کام آئے گی (ایک سبق آموز واقعہ)

آخرت میں اللہ کی معرفت ہی کام آئے گی (ایک سبق آموز واقعہ)

مولانا رومی نے سلطان محمود غزنوی کا ایک عجیب واقعہ لکھا ہے جو بڑا عبرت خیز و سبق آموز ہے، وہ یہ کہ سلطان محمود غزنوی کے زمانہ میں چوروں کا کچھ زور ہو گیا تھا، اور بادشاہ اس کی وجہ سے پریشان ہوا ، اور چوروں کو پکڑنے کے لئے ایک عجیب تدبیر نکالی کہ شاہی لباس اُتار کر چوروں کا سا پھٹا پرانا لباس پہن لیا، اور شہر میں گشت کرنے لگا ، ایک جگہ پر دیکھا کہ بہت سے چور اکھٹے بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے ہیں ، بادشاہ بھی ان میں بیٹھ گیا ، چوروں نے پوچھا کہ تم کون ہو؟ بادشاہ نے کہا کہ میں بھی تم جیسا ہوں ، چوروں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی چور ہے، انھوں نے کہا کہ تم اپنا کوئی ہنر بتاؤ، اگر تمہارے اندر کوئی ہنر ہوگا، تو تم کو اپنے ساتھ شریک کر لیں گے، ورنہ نہیں، بادشاہ نے کہا: پہلے آپ لوگ اپنا اپنا ہنر بتاؤ، پھر میں اپنا ہنر بتاؤں گا، ایک چور نے کہا کہ میں اونچی سے اونچی دیوار پھاند کر مکان میں داخل ہو جا تا ہوں ، اگر چہ بادشاہ کا قلعہ ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرے نے کہا کہ میری ناک کی یہ خاصیت ہے کہ کسی جگہ کی مٹی سونگھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہاں خزانہ ہے یا نہیں۔ تیسرے چور نے کہا کہ میرے بازو میں اتنی طاقت ہے کہ میں گھر میں گھسنے کے لئے اس میں سوراخ کر سکتا ہوں۔ چوتھے چور نے کہا کہ میں ماہر حساب ہوں ، پی ایچ ڈی کیا ہوا ہوں، کتنا ہی بڑا خزانہ کیوں نہ ہو، چند لمحوں میں حساب لگا کر تقسیم کر دیتا ہوں۔ پانچویں چور نے کہا کہ میرے کانوں میں ایسی خاصیت ہے کہ میں کتے کی آواز سن کر بتا دیتا ہوں کہ کتا کیا کہہ رہا ہے۔ چھٹے چور نے کہا کہ میری آنکھ میں یہ خاصیت ہے کہ جس چیز کو رات میں دیکھ لیتا ہوں ، دن میں اس کو پہچان لیتا ہوں۔ اب بادشاہ نے کہا کہ میری داڑھی میں یہ خاصیت ہے کہ جب مجرمین کو پھانسی کے لئے جلاد کے حوالے کیا جاتا ہے، اس وقت اگر میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی کے پھندے سے بچ جاتے ہیں، چونکہ وہ بادشاہ تھا، اس نے ایک خاص لطیف انداز سے اپنا ہنر اور کمال بیان کیا ، سارے چور یہ بات سن کر خوش ہو گئے ، اور کہنے لگے کہ آپ تو چوروں کے قطب ہیں، جب ہم کسی مصیبت میں پھنس جائیں گے، تو آپ ہی کے ذریعہ ہم کو خلاصی مل سکتی ہے۔ پھر سب نے مشورہ کیا اور طے کیا کہ آج بادشاہ کے یہاں چوری کی جائے، اس لئے کہ آج مصیبت سے چھڑانے کے لئے ، داڑھی والا بھی موجود ہے لھذا سب کے سب بادشاہ کے محل کی طرف چل پڑے، راستہ میں کتا بھونکا ، تو کتے کی آواز پہچاننے والے نے کہا کہ کتا کہہ رہا ہے کہ بادشاہ تمہارے ساتھ ہے، لیکن چور پھر بھی چوری کے ارادے سے باز نہ آئے ، اور بادشاہ کے یہاں چوری کر ڈالی ، اور خزانہ لوٹ لیا ، اور جنگل کی طرف آئے اور وہاں بیٹھ کر ماہر حساب نے حساب لگا کر چند منٹوں میں سب کو تقسیم کر دیا ، بادشاہ نے کہا: سب لوگ اپنا پتہ لکھوا دو، تا کہ آئندہ چوری کرنا ہو تو ہم سب لوگ آسانی سے جمع ہوسکیں ، سب کا پتہ نوٹ کرلیا گیا ، اور سب نے اپنا اپنا راستہ لیا، اگلے دن بادشاہ نے عدالت لگوائی اور پولس کو حکم دیا کہ سب کو پکڑ کر لاؤ، جب سب چور ہتھکڑیاں ڈالکر حاضر کئے گئے، بادشاہ نے سب کو پھانسی کا حکم دے دیدیا ، اور کہا کہ اس مقدمہ میں کسی گواہ کی ضرورت نہیں، کیونکہ سلطان خود وہاں موجود تھا۔ یہاں ایک بات ضمناً عرض کرتا ہوں کہ اسی طرح قیامت کے دن اللہ کو کسی گواہ کی ضروت نہیں ہوگی ، اس لئے کہ : ﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ ( تم جہاں بھی ہو ، وہ تمہارے ساتھ ہے ) اگر تم دو ہو تو تیسرا خدا ہے، چار ہو تو پانچواں خدا ہے، جب تم بدکاریاں کرتے ہو، تو اللہ سب دیکھتا ہے، اللہ کو کسی گواہ کی ضرورت نہیں ، اس کے باوجود قیامت کے دن بندوں پر اتمام حجت کرنے کے لئے ہاتھوں اور پیروں کی ، فرشتوں کی اور صحیفہ اعمال کی گواہی ہوگی ۔ الغرض جب چھ کے چھ چور پھانسی کے تختہ پر کھڑے ہو گئے ، تو وہ چور جو آنکھوں کی خاصیت والا تھا ، اس نے بادشاہ کو پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ۔ جورات ہمارے ساتھ تھا ، وہ تختہ دار سے چلایا کہ حضور کچھ دیر کے لئے امان دی جائے ، اور آپ سے تنہائی کا موقعہ دیا جائے ۔ بادشاہ نے کہا ٹھیک ہے، تھوڑی دیر کے لئے پھانسی کو موقوف کر دو، اور اس کو میرے پاس بھیج دو۔ اس نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہر یکے خاصیت خود را نمود ، ہر ایک نے اپنی خاصیت بتادی ، ہر ایک نے اپنا ہنر بتا دیا ، ہمارے وہ ہنر جن پر ہم کو ناز تھا ، انھوں نے ہماری بد بختی کو اور بڑھایا کہ آج ہم تختہ دار پر ہیں، اے بادشاہ! میں نے آپ کو پہچان لیا ہے کہ آپ نے وعدہ فرمایا تھا، جب مجرموں کو تختہ دار پر چڑھایا جاتا ہے، اگر اس وقت میری داڑھی ہل جاتی ہے تو مجرمین پھانسی سے نجات پا جاتے ہیں لھذا آپ اپنا ہنر ظاہر فرمائیں ، تاکہ ہماری جان خلاصی پائے ۔ سلطان محمود نے کہا: ” تمہارے ہنروں نے تو تمہیں مبتلاء قہر کر دیا ہے لیکن یہ شخص جو سلطان کا عارف ہے، اس کی کی چشم سلطان شناس کے طفیل میں تم سب کو رہا کیا جاتا ہے۔ اس عجیب و غریب قصہ کو بیان کر کے مولانا روم کہتے ہیں کہ دنیا میں ہر شخص اپنے ہنر پر ناز کر رہا ہے، بڑے بڑے اہل ہنر اپنی بد مستیوں میں مست ، اور خدا سے غافل ہیں، لیکن کل قیامت کے دن ان کے یہ ہنر کچھ کام نہ آئیں گے، بلکہ یہی دنیوی ہنر ان کو مبتلاء قہر و عذاب کر دیں گے، اور اس کے برخلاف جن لوگوں نے اس دنیا کے اندھیرے میں اپنے حقیقی بادشاہ اللہ عز و جل کو پہچان لیا، اور اس کی معرفت اپنے دلوں میں پیدا کر لی ، قیامت کے دن یہ خود بھی نجات پائیں گے، اور ان کی سفارش گنہگاروں کے حق میں قبول کی جائے گی۔ یا د رکھو کہ جس نے دنیا کے اندھیرے میں اللہ کو پہچاننے کا ہنر سیکھ لیا، تو پھر دوسرے ہنر سیکھنا کچھ مضر نہیں، کیونکہ پھر کوئی بھی ہنر آپ کو اللہ سے غافل نہیں کر سکتا، ڈاکٹر انجینئر بننا منع نہیں ہے، بشرطیکہ آپ اللہ سے غافل نہ ہوں ۔ اس حکایت سے معلوم ہوا کہ چشم سلطان شناس ہی کام آئی ، باقی ہنر تختہ دار پر لے گئے ، اسی طریقہ پر دنیا کے تمام کاروبار جو اللہ سے غافل ہو کر کئے جاتے ہیں ، وہ آخر کار انسان کو تباہی و بربادی میں ڈالدیتے ہیں، لیکن جب کوئی شخص اللہ کی معرفت کا نور حاصل کر لیتا ہے اور وہ اللہ سے غافل ہونے کے بجائے اللہ کا عاقل بن جاتا ہے، تو وہ شخص خود بھی نجات پاتا ہے، دوسروں کو بھی نجات دلانے کا ذریعہ بن جاتا ہے، اس لئے سب سے بڑی چیز اللہ کی معرفت ہے۔