​​زندگی بھر اللہ کی نافرمانی کرنے والا

ایک حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے... فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اقدس ﷺ نے پچھلی اُمتوں کے ایک شخص کا واقعہ بیان فرمایا... کہ ایک شخص تھا جس نے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا تھا... بڑے بڑے گناہ کئے تھے... بڑی خراب زندگی گزاری تھی... اور جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے گھر والوں سے وصیت کرتے ہوئے کہا... کہ میں نے اپنی زندگی کو گناہوں اور غفلتوں میں گزار دی ہے... کوئی نیک کام تو کیا نہیں ہے... اس لئے جب میں مرجاؤں تو میری نعش کو جلا دینا اور جو راکھ بن جائے تو اس کو بلکل باریک پیس لینا... پھر اس راکھ کو مختلف جگہوں پر تیز ہوا میں اُڑادینا تاکہ وہ ذرّات دور دور تک چلے جائیں... یہ وصیت میں اس لئے کر رہا ہوں... کہ اللہ کی قسم میں اللہ تعالٰی کے ہاتھ آگیا تو مجھے اللہ تعالٰی ایسا عذاب دے گا... کہ ایسا عذاب دنیا میں کسی اور شخص کو نہیں دیا ہوگا... اس لئے کہ میں نے گناہ ہی ایسے کئے ہیں کہ اس عذاب کا مستحق ہوں... جب اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اس کے گھر والوں نے اس کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی نعش کو جلایا... پھر اس کو پیسا اور پھر ہواؤں میں اُڑادیا... جس کے نتیجے میں اس کے ذرات دور دور تک بکھر گئے... یہ تو اس کی حماقت کی بات تھی کہ شاید اللہ تعالٰی میرے ذرّات کو جمع کرنے پر قادر نہیں ہوں گے... چنانچہ اللہ تعالٰی نے ہوا کو حکم دیا کہ اس کے ذرات جمع کرو... جب ذرات جمع ہوگئے تو اللہ تعالٰی نے حکم دیا... کہ اس کو دوبارہ مکمل انسان جیسا تھا ویسا بنادیا جائے... چنانچہ وہ دوبارہ زندہ ہوکر اللہ تعالٰی کے سامنے پیش کیا گیا... اللہ تعالٰی نے اس سے سوال کیا کہ تم نے اپنے گھر والوں کو یہ سب عمل کرنے کی وصیت کیوں کی تھی؟ جواب میں اس نے کہا "خـــشیـتک یارب" اے اللہ آپ کے ڈر کی وجہ سے... اس لئے کہ میں نے گناہ بہت کئے تھے اور ان گناہوں کے نتیجے میں مجھے یقین ہوگیا تھا کہ میں آپ کے عذاب کا مستحق ہوگیا ہوں... اور آپ کا عذاب بڑا سخت ہے تو میں نے اس عذاب کے ڈر سے یہ وصیت کردی تھی... اللہ تعالٰی فرمائیں گے کہ میرے ڈر کی وجہ سے تم نے یہ عمل کیا تھا... تو جاؤ میں نے تمہیں معاف کردیا... یہ واقعہ خود حضور اقدسﷺ نے بیان فرمایا جو صحیح مسلم میں صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ـ (صحیح مسلم کتاب التوبة و تنبیہ الغافلین) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : اللہ بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں؟ ( صفحہ نمبر : ۳۳۶، ۳۲۷ ) مولف : مولانا ارسلان بن اختر انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

دنیا کے لیئے بد صورت ترین مگر اپنے وقت کے بہترین کردار

دنیا کے لیئے بد صورت ترین مگر اپنے وقت کے بہترین کردار

لیزی کو دنیا کی بدصورت ترین خاتون کہا گیا اس پر لاکھوں میم بنائے گئے اس کو یہاں تک کہا گیا کہ اتنی بدصورتی کے ساتھ جینے سے اچھا مر جاؤ مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور گریجویشن کے بعد تین کتابیں لکھ کر لاکھوں حسن والوں کے منہ بند کر ڈالے اور پھر وہ دنیا کی بہترین موٹیویشنل سپیکر میں سے ایک بن گئی اور مایوس افراد کو جینے کا ڈھنگ سکھانے والی بن گئی اسی طرح عالمِ اسلام کی مشہور شخصیت جاحظ بھی تھے جاحظ اعتقاداً معتزلی تھا اور انتہائی بد صورت تھا مگر انتہائی ذہین جتنا بد صورت تھا اتنا ہی عظیم عالم تھا جاحظ کی بد صورتی کے بارے کہا گیا الجاحظ يقول الشاعر لو يمسخ الخنزير مسخا ثانيا ... ما كان إلا دون قبح الجاحظ اگر خنزیر کو دوبارہ مسخ کیا جائے تو پھر بھی وہ جاحظ سے کم بد صورت ہوگا کسی نے جاحظ سے پوچھا آپ کبھی شرمندہ ہوئے؟ کہا ہاں ایک بار کوئی بوڑھی عورت میرے پاس آئی اور کہا مجھے آپ سے کچھ کام ہے میرے ساتھ آئیں میں چلا گیا وہ مجھے ایک سنار کے پاس لے گئی اور سنار کے سامنے مجھے کھڑا کر کے چلی گئی میں نے سنار سے پوچھا میرے لائق کوئی حکم؟ کہنے لگا یہ بوڑھی عورت مجھ سے تقاضا کر رہی تھی میں اسکو شیطان کی مورتی بنا کر دوں میں نے کہا شیطان کو دیکھا نہیں میں نے تو وہ کہتی میں لاتی ہوں تم ویسی مورتی بنا دینا پھر وہ آپ کو ساتھ لے آئی اور کہا ایسا ہوتا ہے شیطان!!! اس سب کے باجود جاحظ علم کا پہاڑ تھا علوم اسلامیہ میں جہاں بھی بلاغت کا ذکر آتا ہے جاحظ ایک ستون کی طرح نظر آتا ہے مگر اس نے اپنی بد صورتی کو حصول علم اور بڑا انسان بننے میں رکاوٹ نہیں ڈالنے دیا دو مثالیں آپ کے سامنے پیش کی ہیں ایک لیزی کی دوسری جاحظ کی کہ اتنے بد صورت کوئی ان کے پاس نہ بیٹھے نہ اپنے پاس ان کو بیٹھنے دے مگر انہوں نے ایسا کمال کیا کہ لوگ ان سے ملنے کے محتاج ہوگئے آپ میں کیا کمی ہے؟ آپ کیوں احساس کمتری کے شکار ہیں؟ آپ کیوں مایوس ہیں؟ ہمت کریں حوصلہ کریں اور دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلائیں اور یوں کہا کریں ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں ۔