فقہ و مسائل

حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الثامن عشر
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الثامن عشر
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار التاسع عشر
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار التاسع عشر
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الحادی و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الحادی و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الثانی و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الثانی و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الثالث و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الثالث و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الرابع و العشرون
حاشیۃ ابن عابدین رد المختار علی الدر المختار الجزء الرابع و العشرون
معاملات مالیہ میں ائمہ احناف کا اختلاف
معاملات مالیہ میں ائمہ احناف کا اختلاف
کمیشن اور بروکری کے احکام
کمیشن اور بروکری کے احکام
Image 1

آج ہی تو غربت کا مزا ملا ہے

آج ہی تو غربت کا مزا ملا ہے

ایک گاؤں میں غریب نائی رہا کرتا تھا جو ایک درخت کے نیچے کرسی لگا کے لوگوں کی حجامت کرتا مشکل سے گزر بسر ہو رہی تھی ۔ اس کے پاس رہنے کو نہ گھر تھا۔ نہ بیوی تھی نہ بچے تھے ۔ صرف ایک چادر اور ایک تکیہ اس کی ملکیت تھی ۔ جب رات ہوتی تو وہ ایک بند سکول کے باہر چادر بچھاتا ، تکیہ رکھتا اور سو جاتا ایک دن صبح کے وقت گاوں میں سیلاب آگیا، اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف شور و غل تھا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اٹھا اور سکول کے ساتھ بنی ٹنکی پر چڑھ گیا، چادر بچھائی ، دیوار کے ساتھ تکیہ لگایا اور لیٹ کر لوگوں کو دیکھنے لگا۔ لوگ اپنا سامان ، گھر کی قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہے تھے ، کوئی نقدی لے کر بھاگ رہا ہے ، کوئی زیور کوئی بکریاں تو کوئی کچھ قیمتی اشیا لے کر بھاگ رہا تھا اسی دوران ایک شخص بھاگتا آ رہا تھا اس نے سونے کے زیور پیسے اور کپڑے اٹھا رکھے تھے ۔ جب وہ شخص اس نائی کے پاس سے گزرا اور اسے سکون سے لیٹے ہوئے دیکھا تو غصے سے بولا : اوئے ہماری ساری چیزیں اجڑ گئی ہیں، یہاں جان پر بنی ہوئی ہے اور تو لمبی تان کر سو رہا ہے یہ سن کر نائی بولا : جناب آج ہی تو غربت کا مزا ملا ہے ! جب میں نے یہ کہانی سنی تو ہنس پڑا مگر پھر ایک خیال آیا کہ شاید روز محشر کا منظر بھی کچھ ایسا ہی ہوگا۔ جب تمام انسانوں سے حساب لیا جائے گا۔ ایک طرف غریبوں کا حساب ہو رہا ہو گا۔ دو وقت کی روٹی، کپڑا، حقوق اللہ اور حقوق العباد۔ ایک طرف امیروں کا حساب ہو رہا ہو گا۔ پلازے ، دکانیں ، فیکٹریاں ، گاڑیاں، بنگلے ، سونا اور زیوارات، ملازم ، پیسه ، حلال حرام ، عیش و آرام ، زکوۃ، حقوق اللہ ، حقوق العباد۔ اتنی چیزوں کا حساب کتاب دیتے ہوئے پسینے سے شرابور اور خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوں گے۔ تب شاید اسی نائی کی طرح غریب ان امیروں کو دیکھ رہے ہو گے، چہرے پر ایک عجیب سا سکون اور شاید دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں گے : آج ہی تو غربت کا مزا ملا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں ہر ہر نعمت کا شکر ادا کرنے کی اور اللہ کی رضا کے مطابق استعمال اور تقسیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

Whats New

Naats