جو در کعبے کا کھلوائے اسے فاروق کہتے ہیں جو رب کا دین منوائے اسے فاروق کہتے ہیں نگاہ انتخاب ہے وہ نبوت کی نگاہوں کا اثر ہے جو محمد پاک کی پیاری دعاؤں کا فخر ہے جو محمد پاک کی شریعت کے گواہوں کا جو محسن ہے حکومت کے ایوانوں بادشاہوں کا جو عدوِ دین تڑپائے اسے فاروق کہتے ہیں جسے مانگا خدا سے اس کے آفاقی پیغمبرنے دعائے نبی کی لاج رکھی اس مرد قلندر نے عرب کے مرد حر نے اور حقیقت کے سکندر نے جس کے حکم کو مانا ہواؤں نے سمندر نے جو خشک دریا چلوائے اسے فاروق کہتے ہیں دمِ ہجرت وہ نکلا اور للکارا پجاری کو ابوجہل ،ابو لہب ، ہر بد بخت ناری کو حلالی ہو تو روکو آج عمر کی اس سواری کو میں موتیں بانٹنے نکلا ہوں بتادو ہر بھکاری کو جو کفر کے چھکے چھڑوائے اسے فاروق کہتے ہیں میرا ایمان ہے الطاف میرا یہ عقیدہ ہے پڑھا آپ کی مدحت میں، میں نے جب قصیدہ ہے جو سن کے جھوم اٹھتا ہے خوشا اس کا نصیبا ہے جو جل جائے تو سمجھ لینا شر اس نے خریدا ہے منافق جس سے جل جائے اسے فاروق کہتے ہیں جو در کعبے کا کھلوائے اسے فاروق کہتے ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔۔۔۔ ✍: حافظ محمد الطاف منہاس رح

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ

گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ

ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا ۔ اک روزایک درویش  سے ملا قات ہو گئی تواپنا حال  کہہ سنایا ۔ کہنے لگا کہ بہت پریشان ہوں۔ یہ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت ہے باہر ہیں ۔ لگتا ہے شائد میری موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔ درویش نے اس کی بات سنی اور کہا جاؤ اور نمک لے کر آؤ۔ نوجوان حیران تو ہوا کہ میری بات کا نمک سے کیا تعلق پر پھر بھی  لے آیا ۔ درویش نے کہا پانی کے گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا تو درویش نے پوچھا : اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟ نوجوان تھوكتے ہوئے بولا بہت ہی خراب، ایک دم کھارا درویش مسکراتے ہوئے بولا اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔ صاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے کہا چلو اب اس مٹھی بھر نمک کو پانی میں ڈال دو اور پھر اس جھیل کا پانی پیو۔ نوجوان پانی پینے لگا، تو درویش نے پوچھا بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا لگ رہا ہے ؟ نوجوان بولا نہیں ، یہ تو میٹھا ہے۔ بہت اچھا ہے۔ درویش نوجوان کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ہمارے دکھ بالکل اسی نمک کی طرح ہیں ۔ جتنا نمک گلاس میں ڈالا تھا اتنا ہی جھیل میں ڈالا ہے۔ مگر گلاس کا پانی کڑوا ہو گیا اور جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ۔ اللہ تعالی کسی پر اس کی ہمت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔   اس لئے ہمیں ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی دکھ آئیں ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے... ــــــــــــــــــــــــــ📝📝ــــــــــــــــــــــــــ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ