ڈاکٹر بھی ماہر ہو اور دوا بھی مفید ہو لیکن پرہیز واحتیاط نہ کی جائے تو عموما نہ دوا اثر کرتی ہے اور نہ ڈاکٹر کا علاج مفید ثابت ہوتا ہے، یہ سب مانتے ہیں کہ یہاں ڈاکٹر کی مہارت اور دوا کی افادیت میں کوئی مسئلہ نہیں بلکہ گڑبڑ یہی ہے کہ مریض احتیاط وپرہیز نہیں کرتا۔ اسی طرح جب علماء کرام کہتے کہ گمراہوں اور اہلِ باطل کو سننے اور پڑھنے سے پرہیز کریں تو وہاں بھی نہ علماء کرام کی مہارت میں کوئی کمی ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے دین اور مذہب میں کوئی نقص ہوتا ہے بلکہ سارا مسئلہ پرہیز نہ کرنے کا ہوتا ہے کہ عام آدمی علم نہ ہونے کی وجہ سے گمراہوں کی چرب زبانی اور فریب کاری سے متأثر ہوکر گمراہ ہوسکتا ہے۔ اور ہاں جس طرح پرہیز بتانا ڈاکٹر کی جانب سے خیر خواہی کی علامت سمجھی جاتی ہے اسی طرح گمراہوں کو سننے اور پڑھنے سے پرہیز بتلانا بھی علماء کرام کی جانب سے خیر خواہی ہی سمجھنی چاہیے۔ اس لیے اہلِ حق سے دین سیکھنے اور وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ گمراہ طبقات کو سننے اور پڑھنے سے بالکلیہ اجتناب ضروری ہے! ✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن جامعۃ الابرار مسجد اختر گلبرگ بلاک 11 کراچی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے رجوع کی چند مثالیں

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے رجوع کی چند مثالیں

بہشتی زیور اور تعلیم الدین کے بعض مقامات کی اصلاح: (۱) بہشتی زیور میں عشاء کے بعد چار سنتیں لکھ دی ہیں، صحیح یہ ہے کہ دو سنت ہیں اور دو نفل ۔ (۲) بہشتی زیور میں ایام بیض ۱۲، ۱۳، ۱۴ تاریخوں کو لکھ دیا ہے، صحیح ۱۳، ۱۴ ، ۱۵ ہیں۔ (۳) تعلیم الدین اور بہشتی زیور میں تیجے، چالیسویں وغیرہ کے بدعت ہونے کے ذکر میں یہ لفظ لکھا گیا ہے "ضروری سمجھ کر کرنا" اس سے شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید غیر ضروری سمجھ کر کرنا جائز ہو یہ قید واقعی تھی ، احترازی نہ تھی، حکم یہ ہے کہ خواہ کسی طرح سے کرے بدعت ہے۔ (۴) تعلیم الدین میں قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں یہ لفظ لکھا گیا ہے: ” کثرت سے چراغ جلانا “ اس میں بھی مثل مقام سوم کے سمجھنا چاہیے، حکم یہ ہے کہ ایک چراغ رکھنا بھی بدعت ہے۔ احباب سے دعا کی استدعا ہے کہ حق تعالیٰ میری خطا و عمد کو معاف فرمائے اور میری تقریرات و تحریرات کو اضلال کا سبب نہ بنائیں۔ (اشرف السوانح : ۱۳۵/۳، بوادر النوادر : ۴۲۸)