یہ بے بسی کے عالَم میں اپنی ادنی سی کوشش کا اظہار ہے! یہ غزہ کے ایشو کو *ہائی لائٹ اور زندہ* رکھنے کے لیے اقدام ہے! یہ غزہ کے مظلوم بھائیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی ہے! یہ عالمی دنیا کو غزہ پر ہونے والے سنگین ظلم کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش ہے! یہ حسبِ استطاعت کچھ کر گزرنے کی ایک جھلک ہے! یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے والوں کے دلوں پر ایک دستک ہے! یہ سنگین اسرائیلی مظالم کے خلاف ریکارڈ کیا جانے والا احتجاج ہے! یہ مسلم دنیا کو جھنجھوڑنے کی ادنی سی کاوش ہے! یہ عالمی ضمیر کو بیدار کرنے کی اک سعی ہے! یہ شعور کو بیدار کرنے اور بیدار رکھنے کی اک مہم ہے! یہ تاریخ میں اسرائیلی مظالم کو درج کرنے والا اک سیاہ باب ہے! سو آپ کیوں خاموش ہیں؟ آپ کیوں غافل ہیں؟ دعا کیوں نہیں کرتے؟ تعاون کیوں نہیں کرتے؟ آواز کیوں بلند نہیں کرتے؟ بائیکاٹ کیوں نہیں کرتے؟ جو کچھ بس میں ہے وہ کرتے رہیے اور غزہ کے ایشو کو مسلسل *ہائی لائٹ اور زندہ* رکھیے، یہ وقت ایک اہم تقاضا ہے! ✍️۔۔۔ بندہ مبین الرحمٰن محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اسرائیل سے متعلق تین موقف

اسرائیل سے متعلق تین موقف

موجودہ دور میں اسرائیل سے متعلق تین موقف پائے جاتے ہیں : نمبر(۱) اسرائیل، امریکہ وغیرہ: ان کا موقف ہے کہ : بیت المقدس سمیت فلسطین کے جتنے حصے پر اسرائیل قابض ہے، وہ اسرائیل کا حصہ ہیں۔ جلا وطن کیے گئے فلسطینی جہاں کہیں جائیں، فلسطین میں اُن کی کوئی جگہ نہیں۔ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہوگا۔ نمبر (۲) ترکی ، اردن ، مصر: وہ اسلامی ممالک، جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، اُن کا موقف یہ ہے کہ: ۱۹۴۸ء میں اقوام متحدہ نے جو رقبہ اور حدود اسرائیل کے لیے طے کیا تھا، اسرائیل اُن کے اندر رہے، بیت المقدس اور باقی فلسطین کو آزاد کرے۔ وہ اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ نمبر (۳) پاکستان اور سعودیہ عرب وغیرہ: وہ ممالک جنھوں نے اسرائیل کے ناجائز وجود کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ ان کا موقف یہ ہے کہ : یہودی پورے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ ختم کریں، اُن کے پاس یورپی ممالک کی شہریتیں موجود ہیں۔ وہ ۱۹۲۲ء میں اور اس کے بعد جہاں جہاں سے اُٹھ کر فلسطین آئے تھے، وہاں واپس جائیں۔ اور قضیہ فلسطین کا حل ۱۹۴۸ء کے بجائے ۱۹۱۷ء کی پوزیشن پر حل کیا جائے ۔ جب خلافت عثمانیہ کی عملداری تھی اور فلسطین کے اندر کسی یہودی کو مستقل رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ (ماہنامہ صفدر اکتوبر/ ص: ۱۰)