عرب میں ایک عورت تھی اس کا نام اُم جعفر تھا۔ انتہائی سخی تھی۔ لوگوں میں ایسے تقسیم کرتی تھی کہ دائیں کو بائیں ہاتھ کا پتا نہ چلے۔ کچھ دنوں سے وہ ایک راستے سے گزرنے لگی۔ اس راستے پر دو اندھے بیٹھے ہوتے۔ یہ دونوں صدائیں لگاتے۔ ایک کی صدا ہوتی۔ الٰہی! مجھے اپنے فضل و کرم سے روزی عطا کر۔ دوسرا اندھا کہتا۔ یا رب مجھے ام جعفر کا بچا ہوا عطا کر۔ ام جعفر ان دونوں کی صدائیں سنتی اور دونوں کو عطا کرتی۔ جو شخص الله کا فضل طلب کر رہا تھا، اسے دو درہم دیتی جبکہ (ام جعفر) کے فضل کے طلبگار کو ایک بھنی ہوئی مرغی عطا کرتی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جسے مرغی ملتی، وہ اپنی مرغی دوسرے اندھے کو دو درہم میں بیچ دیتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ایک دن ام جعفر اس اندھے کے پاس آئی جو ام جعفر کا فضل طلب کرتا تھا اور اس سے سوال کرتا تھا اور اس سے سوال کیا۔ کیا تمہیں سو دینار ملے ہیں؟ اندھا حیران ہو گیا۔ اس نے کہا۔ نہیں! مجھے صرف ایک بھنی ہوئی مرغی ملتی تھی جو میں دو درہم میں بیچ دیتا تھا۔ ام جعفر نے کہا۔ جو الله کا فضل طلب کر رہا تھا، میں اسے دو درہم دیتی اور تمہیں بھنی ہوئی مرغی میں دس دینار ڈال کر دیتی رہی۔ اندھے نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا۔ وہ چیخنے اور چلانے لگا۔ ہائے میری کمبختی، کاش میں ایسا نہ کرتا۔ میں مارا گیا۔ ام جعفر نے کہا۔ یقینا اللہ کا فضل طلب کرنے والا کامیاب ہے اور انسانوں کے فضل کا طلبگار محروم ہے۔ منقول

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

کمال ہے بھئی!

کمال ہے بھئی!

ہمارے گھر کے قریب ایک بیکری ہے۔ اکثرشام کے وقت کام سے واپسی پر میں وہاں سے صبح ناشتے کے لئے کچھ سامان لے کے گھر جاتا ہوں۔ آج جب سامان لے کے بیکری سے باہر نکل رہا تھا کہ ہمارے پڑوسی عرفان بھائی مل گئے۔ وہ بھی بیکری سے باہر آرہے تھے۔ میں نے سلام دعا کی اور پوچھا. "کیا لے لیا عرفان بھائی؟" کہنے لگے۔ "کچھ نہیں حنیف بھائی! وہ چکن پیٹس تھے اور جلیبیاں تھیں بیگم اور بچوں کے لئے" میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ "کیوں..آج کیا بھابھی نے کھانا نہیں پکایا" کہنے لگے۔ "نہیں نہیں حنیف بھائی! یہ بات نہیں ہے... دراصل آج دفتر میں شام کے وقت کچھ بھوک لگی تھی تو ساتھیوں نے چکن پیٹس اور جلیبیاں منگوائیں ... میں نے وہاں کھائے تھے تو سوچا بیچاری گھر میں جو بیٹھی ہے وہ کہاں کھانے جائے گی.. اس کے لئے بھی لے لوں... یہ تو مناسب نہ ہوا نا کہ میں خود تو آفس میں جس چیز کا دل چاہے وہ کھالوں اور بیوی بچوں سے کہوں کہ وہ جو گھر میں پکے صرف وہی کھائیں" میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا کیونکہ میں نے آج تک اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا. میں نے کہا۔ "اس میں حرج ہی کیا ہے عرفان بھائی! آپ اگر دفتر میں کچھ کھاتے ہیں تو بھئی بھابھی اور بچوں کا گھر میں جس چیز کا دل چاہے گا، کھاتے ہونگے" وہ کہنے لگے۔ "نہیں نہیں حنیف بھائی! وہ بیچاری تو اتنی سی چیز بھی ہوتی ہے میرے لئے الگ رکھتی ہے... یہاں تک کہ اڑوس پڑوس سے بھی اگر کسی کے گھر سے کوئی چیز آتی ہے تو اس میں سے پہلے میرا حصّہ رکھتی ہے.. بعد میں بچوں کو دیتی ہے... اب یہ تو خود غرضی ہوئی نا کہ میں وہاں دوستوں میں گل چھڑے اڑاؤں" میں نے حیرت سے کہا۔ "گل چھڑے اڑاؤں؟ یہ چکن پیٹس... یہ جلیبیاں... یہ گل چھڑے اڑآنا ہے عرفان بھائی؟ اتنی معمولی سی چیزیں" وہ کہنے لگے۔ " کچھ بھی ہے حنیف بھائی! مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ آخرت میں کہیں میری اسی بات پر پکڑ نہ ہو کہ کسی کی بہن بیٹی کو بیاہ کے لائے تھے... خود دوستوں میں مزے کر رہے تھے اور وہ بیچاری گھر میں بیٹھی دال روٹی کھارہی تھی" میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہا.. اور وہ بولے جارہے تھے. "دیکھئے...ہم جو کسی کی بہن بیٹی بیاہ کے لاتے ہیں نا... وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتی ہے.. اسے بھی بھوک لگتی ہے... اس کی بھی خواہشات ہوتی ہیں... اس کا بھی دل کرتا ہے طرح طرح کی چیزیں کھانے کا..... پہنے اوڑھنے کا... گھومنے پھرنے کا... اسے گھر میں پرندوں کی طرح بند کردینا... اور دو وقت کی روٹی دے کے اترانا ... کہ بڑا تیر مارا... یہ انسانیت نہیں...یہ خود غرضی ہے... اور پھر ہم جیسا دوسرے کی بہن اور بیٹی کے ساتھ کرتے ہیں... وہی ہماری بہن اور بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے" ان کے آخری جملے نے مجھے ہلا کے رکھ دیا... میں نے تو آج تک اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا. میں نے کہا۔ "آفرین ہے عرفان بھائی! آپ نے مجھے سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا" میں واپس پلٹا تو وہ بولے۔ "آپ کہاں جارہے ہیں؟" میں نے کہا۔ " آئسکریم لینے.......... وہ آج دوپہر میں آفس میں آئسکریم کھائی تھی"