شیخ چلی کا نام سب نے سنا ہو گا۔😅 ایک دن اس کے ہمسائیوں نے ایک پیالے میں سالن ڈال کر ان کے گھر بھیجا۔ یہ سالن شیخ چلی نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے ماں سے پوچھا ”یہ کیا ہے“ ماں نے جواب دیا ”اسے بڑیاں کہتے ہیں“ شیخ چلی نے گول گول تیرتے ٹکڑوں میں سے ایک کو اٹھایا اور پھر پوچھا ”یہ کیا ہے“ ماں نے مختصر جواب دیا ”بڑی“ شیخ چلی نے خوب پیٹ بھر کھایا۔ اسے یہ کھانا بہت پسند آیا۔ ”یہ تو بہت مزیدار ہے“ اگلے ہفتے شیخ چلی ماں سے ضد کرنے لگا ”ماں میں تو وہی کھانا کھاؤں گا جو ساتھ والوں کے گھر سے آیا تھا“ ماں نے کہا ”اس میں بہت محنت اور وقت لگتا ہے۔ نہ تو میرے اندر دال پیسنے کی ہمت ہے نہ ہی طاقت۔ اگر تو اتنا ہی اتاولا (بے چین) ہو رہا ہے تو بہو کو لانے کے بہانے اپنے سسرال چلا جا۔ وہی تیرے نخرے اٹھائیں گے۔ ان سے فرمائش کر لینا“ شیخ چلی خوش ہو گیا ماں سے پوچھا ”اس سالن کا کیا نام تھا“ ماں نے کہا ”بڑیاں کہہ دینا یا بڑی کہہ دینا وہ سمجھ جائیں گے“ شیخ چلی جانے کی تیاری کرنے لگا۔ جب تیار ہوا تو پھر سالن کا نام بھول گیا اور اپنی ماں سے پوچھا ”ماں میں اس کا نام بھول گیا پھر سے بتانا“ ماں نے پھر بتایا ”بڑیاں“ شیخ چلی نے کہا ”اگر میں وہاں جا کر بھول گیا تو کون یاد دلائے گا“ ماں نے کہا، ”تو اس طرح کر کہ سارے راستے بڑیاں بڑیاں کہتے چلے جانا“ شیخ چلی روانہ ہوا وہ کہتا جاتا تھا ”بڑیاں۔ بڑیاں۔ بڑیاں۔“ راستے میں چڑی ماروں نے جال لگایا تھا جب انہوں نے سنا بڑیاں (بڑنا یعنی داخل ہونا گھس جانا، بڑیاں یعنی داخل ہو گئیں) وہ سمجھے چڑیاں جال میں آ گئی ہیں۔ انہوں نے جال کھینچ لیا مگر وہ تو خالی تھا۔ انہوں نے شیخ چلی کو خوب پیٹا۔ شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“ وہ کہنے لگے ”تو جو کہہ رہا تھا بڑیاں بڑیاں“ شیخ چلی نے پوچھا ”تو پھر کیا کہوں“ انہوں نے کہا ”تو کہہ آتے جاؤ پھنستے جاؤ“ اب شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔ آتے جاؤ پھنستے جاؤ۔“ آگے جنگل میں کچھ چور اپنی چوری کا مال دبا رہے تھے انہوں نے جب سنا ”آتے جاؤ پھنستے جاؤ“ وہ ڈر گئے کہ کوئی سنتری ہے اس نے دیکھ لیا ہے۔ وہ ڈر کر ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے مگر جب دیکھا کہ ایک بدمست سا شخص اپنی ہی دھن میں بولے جا رہا ہے تو انہوں نے اسے پکڑ لیا اور خوب پیٹا۔ شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“ انہوں نے کہا ”تو جو کہتا ہے آتے جاؤ پھنستے جاؤ“ شیخ چلی نے پوچھا ”پھر کیا کہوں“ انہوں نے کہا ”تو کہہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ“ اب شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔ لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔“ آگے ایک جنازہ آ رہا تھا۔ جب انہوں نے سنا کہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ۔ انہوں نے شیخ چلی کو پکڑ لیا اور خوب پیٹا۔ ”ہمارا جوان بچہ مر گیا اور تو کہہ رہا ہے کہ لاتے جاؤ دباتے جاؤ“ شیخ چلی نے روتے ہوئے پوچھا ”پھر میں کیا کہوں“ ”تو کہہ ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے“ شیخ چلی کو جواب ملا۔ شیخ چلی کہتا روانہ ہوا ”ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے۔ ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے۔“ شیخ چلی کو راستے میں ایک بارات ملی انہوں نے جو شیخ چلی کی گردان سنی تو اسے بہت پیٹا۔ شیخ چلی نے پوچھا ”مجھے کیوں مارتے ہو“ انہوں نے جواب دیا ”ہمارا خوشی کا موقع ہے اور تو کہتا ہے ایسا اللہ کسی کے ساتھ نہ کرے“ شیخ چلی نے پوچھا ”پھر کیا کہوں“ انہوں نے کہا ”کہنا کیا ہے چپ چاپ چلا جا“ چیخ چلی روانہ ہوا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے سسرال پہنچ گیا۔ وہاں اس کا بہت زوردار استقبال ہوا۔ اس کے آگے انواع و اقسام کے کھانے رکھے گئے۔ مگر شیخ چلی نے کسی کھانے کو ہاتھ نہ لگایا۔ سسرال والے پریشان ہو گئے۔ انہوں نے پوچھا ”کیا کھانا پسند نہیں آیا۔ آپ بتائیں کیا کھائیں گے“ (سفیان تارڑ)❤️ شیخ چلی کھانے کا نام بھول چکا تھا بولا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“ انہوں نے پوچھا ”کون سا کھانا“ شیخ چلی بولا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“ اب انہوں نے مختلف کھانوں کے نام لینے شروع کر دیے۔ مگر شیخ چلی کا ہر دفعہ وہی جواب ہوتا ”ہم تو وہی کھانا کھائیں گے“ سسرال والے تنگ آ گئے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ رات کو شیخ چلی کو بھوک لگی تو سب سو چکے تھے۔ وہ چپکے چپکے باورچی خانے میں گیا اور چیزیں ٹٹولنے لگا۔ اس کے ہاتھ میں ایک انڈا آیا۔ ابھی وہ اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک ڈبہ دھڑ سے نیچے گرا۔ گھر والے سمجھے بلی آئی ہے وہ باورچی خانے کی طرف دوڑے۔ شیخ چلی کو انڈا چھپانے کی کوئی جگہ نہ ملی اس نے جھٹ انڈا منہ میں رکھ لیا۔ ساس نے آ کر دیکھا داماد کے منہ میں پھوڑا نکلا ہے۔ ”ہائے ہائے اس کے منہ میں پھوڑا نکلا ہے اسی لیے رات بھی کھانا نہیں کھایا“ آدھی رات کو حکیم صاحب کو جگا کر گھر بلایا گیا حکیم صاحب نے آ کر معائنہ کیا۔ جب انہوں نے شیخ چلی کا گال ایک طرف سے دبایا تو اس نے انڈا دوسری طرف کر لیا اب حکیم صاحب جس طرف سے گال دباتے شیخ چلی انڈا دوسری طرف کر لیتا۔ کافی دیر یہ عمل جاری رہا۔ آخر حکیم صاحب تھک کر بولے ”یہ تو بڑی خطرناک بیماری ہے“ جونہی شیخ چلی نے بڑی کا لفظ سنا اسے یاد آ گیا منہ سے انڈا نکال کر چلانے لگا ”ہم تو بڑی کھانا کھائیں گے ہم تو بڑی کھانا کھائیں گے“ شیخ چلی کی مشکل آسان ہوئی اور اس کے سسرال والوں کی بھی۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

دیوار پر والد کے ہاتھ کے نشان۔

دیوار پر والد کے ہاتھ کے نشان۔

ابا جی بوڑھے ہو گئے تھے اور چلتے چلتے دیوار کا سہارا لیتے تھے۔ نتیجتاً دیواروں کا رنگ خراب ہونے لگ گیا، جہاں بھی وہ چھوتے تھے وہاں دیواروں پر ان کی انگلیوں کے نشانات چھپ جاتے تھے۔ میری بیوی کو جب پتہ چلا تو وہ اکثر گندی نظر آنے والی دیواروں کے بارے میں مجھ سے شکایت کرتی۔ ایک دن سر میں درد ہو رہا تھا تو *ابا جی نے سر پر تیل کی مالش کی۔ تو چلتے ہوئے دیواروں پر تیل کے داغ بن گئے ۔ یہ دیکھ کر میری بیوی چیخ اٹھی۔ اور میں نے بھی غصے میں اپنے والد کو ڈانٹ دیا اور ان سے بدتمیزی سے بات کی، انہیں مشورہ دیا کہ چلتے وقت دیواروں کو ہاتھ نہ لگائیں۔ وہ بہت غمگین نظر آئے ۔ *مجھے اپنے رویے پر شرمندگی بھی محسوس ہوئی مگر ان سے کچھ نہ کہا۔ ابا جی نے چلتے ہوئے دیوار کو پکڑنا چھوڑ دیا۔ اور ایک دن وہ گر پڑے اور بستر سے جا لگے جو ان کے لئے بستر مرگ بن گیا اور کچھ ہی دنوں میں ہم سے رخصت ہو گئے۔ میں نے اپنے دل میں احساس جرم محسوس کیا اور میں ان کے تاثرات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا تھا اور اس کے فوراً بعد اپنے آپ کو ان کی موت کے لئے خود کو معاف نہیں کر پاتا ہوں۔ کچھ دیر بعد، ہم اپنے گھر کو پینٹ کروانا چاہتے تھے۔ جب پینٹر آئے تو میرا بیٹا، جو اپنے دادا سے پیار کرتا تھا، نے مصوروں کو دادا کے انگلیوں کے نشانات صاف کرنے اور ان علاقوں کو پینٹ کرنے کی اجازت نہیں دی۔ پینٹر بہت اچھے اور جدت پسند تھے۔ انہوں نے اسے یقین دلایا کہ وہ میرے والد کے فنگر پرنٹس/ ہینڈ پرنٹس کو نہیں ہٹائیں گے، بلکہ ان نشانات کے گرد ایک خوبصورت دائرہ بنائیں گے اور ایک منفرد ڈیزائن بنائیں گے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ پرنٹس ہمارے گھر کا حصہ بن گئے* ۔ ہمارے گھر آنے والے ہر فرد نے ہمارے منفرد ڈیزائن کی تعریف کی۔ وقت کے ساتھ ساتھ میں بھی بوڑھا ہوتا گیا۔ اب مجھے چلنے کے لیے دیوار کے سہارے کی ضرورت تھی۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے یاد آئے اپنے والد سے میرے کہے ہوئے الفاظ، اور سہارے کے بغیر چلنے کی کوشش کی تاکید ۔ میرے بیٹے نے یہ دیکھا اور فوراً میرے پاس آیا اور چلتے ہوئے مجھے دیواروں کا سہارا لینے کو کہا، اس خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہ میں سہارے کے بغیر گر سکتا ہوں، میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا مجھے پکڑے ہوئے ہے۔ میری پوتی فوراً آگے آئی اور پیار سے میرا ہاتھ اپنے کندھے پر رکھ کر سہارا دیا۔ میں تقریباً خاموشی سے رونے لگا۔ اگر میں نے اپنے والد کے لیے بھی یہی کیا ہوتا تو وہ زیادہ دیرتک صحت مند اور خوش رہتے میری پوتی نے مجھے ساتھ لیا اور صوفے پر بٹھایا۔ پھر اس نے مجھے دکھانے کے لیے اپنی ڈرائنگ بک نکالی۔ اس کی استانی نے اس کی ڈرائنگ کی تعریف کی تھی اور اس کو بہترین ریمارکس دیے تھے۔ خاکہ دیواروں پر میرے والد کے ہاتھ کے نشان کا تھا۔* اس کے ریمارکس تھے- "کاش ہر بچہ بڑوں سے اسی طرح پیار کرے" میں اپنے کمرے میں واپس آیا اور اپنے والد سے معافی مانگتے ہوئے رونے لگا، جو اب نہیں تھے ۔ ہم بھی وقت کے ساتھ بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ آئیے اپنے بڑوں کا خیال رکھیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں ۔ اپنے گھر والوں کو بھی بتائیں کہ یہ بزرگ قیمتی ہوتے ہیں دیواریں اور چیزیں نہیں۔ منقول