معاشرہ کا درد ناک پہلو یہ بھی ہے: کسی بھی لڑکا لڑکی کے لیے شادی کے بعد ان کی اولین ترجیح اولاد کی نعمت کا حصول ہوتا ہے۔ لیکن مشاہدہ ہے کہ ابھی دلہن کے ہاتھ کی مہندی کا رنگ پھیکا نہیں پڑتا کہ محلے بھر کی دادیاں، نانیاں جمع ہوتی ہیں اور لڑکی سے کہتی ہیں، “بہو خوشخبری کب سنا رہی ہو؟” جیسے خوشخبری تو بہو اپنے ساتھ جہیز میں لائی ہو اور خوشخبری سنانا اس کے دائرہ اختیار میں ہو۔ اور جن جوڑوں کی شادی کو تین، چار سال کا عرصہ گزر جائے تو لوگ کہتے ہیں، “اب تو خوشخبری سنا ہی دو!” لیکن کبھی سوچا ہے ہمارے ان جملوں سے اس لڑکی کے دل پر کیسے آری چلتی ہوگی، وہ کتنا ذہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہوگی۔ ہمارے کہے ہوئے جملے محض جملے نہیں ہوتے، یہ الفاظ کے گرز ہوتے ہیں جس کے ذریعے ہم اس لڑکی کے ارمانوں کا خون کرتے ہیں۔ نہ جانے اس لڑکی نے خود ہی اپنے آپ کو کتنی تسلیاں دی ہوں گی، ذہن بھٹکانے کے لیے کیا کیا جتن کیے ہوں گے۔ لیکن ہمارا ایک سوال جو صرف چسکا لینے کے لیے ہوتا ہے، اس لڑکی کو کتنی اذیت اور کتنا درد دیتا ہوگا، عام لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہی دباؤ ہوتا ہے جس کی وجہ سے لڑکیاں جعلی عاملوں کے پاس جاتی ہیں، جہاں وہ اپنا مال تو ضائع کرتی ہی ہیں، بسا اوقات اپنی عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ میں اپنی ماؤں، بہنوں سے التجا کرتا ہوں کہ کچھ بھی بولنے میں احتیاط کریں، “پہلے تولو، پھر بولو” پر عمل کریں۔ یہ وقت چسکے لینے کا نہیں ہے۔ یہ وقت ان کی امید بڑھانے کا ہے، ان کو حوصلہ دینے کا ہے۔ اللہ کی ذات پر ان کے یقین کو مضبوط کرنے کا ہے۔ خدانخواستہ اگر کل کو یہی صورت ہماری بہن، بیٹی کے ساتھ پیش آ گئی تو ہم کہاں جائیں گے؟ اس لیے ہم سب کو چاہیے کہ اپنے الفاظ کا چناؤ بہت سوچ سمجھ کر کریں تاکہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار نہ ہو۔ لوگوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کے ساتھ ہمدردی اور محبت سے پیش آئیں۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ

گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ

ایک نوجوان اپنی زندگی کے معاملات سے کافی پریشان تھا ۔ اک روزایک درویش  سے ملا قات ہو گئی تواپنا حال  کہہ سنایا ۔ کہنے لگا کہ بہت پریشان ہوں۔ یہ دکھ اور پریشانیاں اب میری برداشت ہے باہر ہیں ۔ لگتا ہے شائد میری موت ہی مجھے ان غموں سے نجات دلا سکتی ہے۔ درویش نے اس کی بات سنی اور کہا جاؤ اور نمک لے کر آؤ۔ نوجوان حیران تو ہوا کہ میری بات کا نمک سے کیا تعلق پر پھر بھی  لے آیا ۔ درویش نے کہا پانی کے گلاس میں ایک مٹھی نمک ڈالو اور اسے پی لو۔ نوجوان نے ایسا ہی کیا تو درویش نے پوچھا : اس کا ذائقہ کیسا لگا ؟ نوجوان تھوكتے ہوئے بولا بہت ہی خراب، ایک دم کھارا درویش مسکراتے ہوئے بولا اب ایک مٹھی نمک لے کر میرے ساتھ اس سامنے والی جھیل تک چلو۔ صاف پانی سے بنی اس جھیل کے سامنے پہنچ کر درویش نے کہا چلو اب اس مٹھی بھر نمک کو پانی میں ڈال دو اور پھر اس جھیل کا پانی پیو۔ نوجوان پانی پینے لگا، تو درویش نے پوچھا بتاؤ اس کا ذائقہ کیسا ہے، کیا اب بھی تمہیں یہ کھارا لگ رہا ہے ؟ نوجوان بولا نہیں ، یہ تو میٹھا ہے۔ بہت اچھا ہے۔ درویش نوجوان کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا ہمارے دکھ بالکل اسی نمک کی طرح ہیں ۔ جتنا نمک گلاس میں ڈالا تھا اتنا ہی جھیل میں ڈالا ہے۔ مگر گلاس کا پانی کڑوا ہو گیا اور جھیل کے پانی کو مٹھی بھر نمک سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اسی طرح انسان بھی اپنے اپنے ظرف کے مطابق تکلیفوں کا ذائقہ محسوس کرتے ہیں۔ جب تمھیں کوئی دکھ ملے تو خود کو بڑا کر لو، گلاس مت بنے رہو بلکہ جھیل بن جاؤ۔ اللہ تعالی کسی پر اس کی ہمت سے ذیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔   اس لئے ہمیں ہمیشہ یقین رکھنا چاہیے کہ جتنے بھی دکھ آئیں ہماری برداشت سے بڑھ کر نہیں ہوں گے... ــــــــــــــــــــــــــ📝📝ــــــــــــــــــــــــــ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ