♦️♦️ *استاذ کی بے ادبی کا انجام* ♦️♦️ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں صاحب ندویؒ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے، فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک طالب علم پڑھتا تھا، احمد علی نگرامی نام تھا اسکا، اس کا نام بھی حضرت نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، کہا کہ وہ انتہائی ذہین تھا، عربی دوم میں وہ جب پہنچ گیا تو وہ عربی سکھنے لگا اور جب وہ عربی سوم میں پہنچا تو برجستہ عربی بولتا تھا، تمام استاذوں کو اس پر ناز تھا، لیکن حضرت مولانا سید سلیمان ندویؒ نے جب اپنا تعلق حضرت تھانویؒ سے قائم کیا، تو ندوہ کے کچھ طلبا نے ان کی مخالفت کی اور اسٹرائک کی تو یہ طالب پیش پیش تھا۔ وہ طالب علم ابھی طالب علمی سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ اس کو بیماری لگ گئی، اتنی خطرناک بیماری لگی کہ اس کے گھر والوں نے اس کو ہاتھ پاؤں باندھ کر گھر پر رکھ دیا، وہ فرماتے ہیں کہ میرے بھائی عبد العلی صاحبؒ چوں کہ ڈاکٹر تھے، انھیں بلایا گیا کہ یہ کون سی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے؟ اس کے بعد انھوں نے بہت علاج کیا، لیکن اچھا ہوا نہیں۔ میں اپنے استاذ کی خدمت میں گیا اور کہا حضرت اس طالب علم نے آپ کو بہت ستایا ہے، آپ نے اس کو کوئی بددعا تو نہیں دی؟ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت نے کچھ جواب نہیں دیا۔ پھر میں نے کہا کہ حضرت ! بددعا دی ہو تو معاف کر دو، اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں، کیوں کہ وہ انتہائی ذہین طالب علم تھا۔ حضرت نے مجھے کچھ کہا نہیں تو میں آگیا۔ دوسرے دن جب میں گیا تو حضرت نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں نے اس کو معاف کر دیا، میں نے اس کے لیے دعا کی ، وہ فرماتے ہیں کہ تیسرے ہی دن میں نے اس کو بازار میں دیکھا کہ وہ بازار میں صحیح سے سلامت جا رہا تھا، مجھے بہت توقع تھی کہ وہ بہت کام کرے گا میرے سے بھی اچھا لکھنے والا تھا، لیکن ہفتے کے بعد پتا چلا کہ وہ کسی حادثے میں انتقال کر گیا۔ 📚 ماہنامہ الفاروق ، ذوالقعدة ۱۴۳۱ ھ ص:۱٢ منقول۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

حضرت بلال _ عاشق رسول ﷺ __!!

حضرت بلال _ عاشق رسول ﷺ __!!

حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ نے پہلی دفعہ حضور نبی کریم ﷺ کو کیسے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکے کے لوگوں کو بہت ہی کم جانتا تھا۔ کیونکہ غلام تھا اور عرب میں غلاموں سے انسانیت سوز سلوک عام تھا، ان کی استطاعت سے بڑھ کے ان سے کام لیا جاتا تھا تو مجھے کبھی اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ باہر نکل کے لوگوں سے ملوں، لہذا مجھے حضور پاک یا اسلام یا اس طرح کی کسی چیز کا قطعی علم نہ تھا۔ ایک دفعہ کیا ہوا کہ مجھے سخت بخار نے آ لیا۔ سخت جاڑے کا موسم تھا اور انتہائی ٹھنڈ اور بخار نے مجھے کمزور کر کے رکھ دیا، لہذا میں نے لحاف اوڑھا اور لیٹ گیا۔ ادھر میرا مالک جو یہ دیکھنے آیا کہ میں جَو پیس رہا ہوں یا نہیں، وہ مجھے لحاف اوڑھ کے لیٹا دیکھ کے آگ بگولا ہو گیا۔ اس نے لحاف اتارا اور سزا کے طور پہ میری قمیض بھی اتروا دی اور مجھے کھلے صحن میں دروازے کے پاس بٹھا دیا کہ یہاں بیٹھ کے جَو پیس۔ اب سخت سردی، اوپر سے بخار اور اتنی مشقت والا کام، میں روتا جاتا تھا اور جَو پیستا جاتا تھا۔ کچھ ہی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی، میں نے اندر آنے کی اجازت دی تو ایک نہائت متین اور پر نور چہرے والا شخص اندر داخل ہوا اور پوچھا کہ جوان کیوں روتے ہو؟ جواب میں میں نے کہا کہ جاؤ اپنا کام کرو، تمہیں اس سے کیا میں جس وجہ سے بھی روؤں، یہاں پوچھنے والے بہت ہیں لیکن مداوا کوئی نہیں کرتا۔ قصہ مختصر کہ بلال نے حضور کو کافی سخت جملے کہے۔ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ جملے سن کے چل پڑے، جب چل پڑے تو بلال نے کہا کہ بس؟ میں نہ کہتا تھا کہ پوچھتے سب ہیں مداوا کوئی نہیں کرتا۔۔ حضور یہ سن کر بھی چلتے رہے۔ بلال کہتے ہیں کہ دل میں جو ہلکی سی امید جاگی تھی کہ یہ شخص کوئی مدد کرے گا وہ بھی گئی۔ لیکن بلال کو کیا معلوم کہ جس شخص سے اب اسکا واسطہ پڑا ہے وہ رحمت اللعالمین ہے۔ بلال کہتے ہیں کہ کچھ ہی دیر میں وہ شخص واپس آ گیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں گرم دودھ کا پیالہ اور دوسرے میں کھجوریں تھیں۔ اس نے وہ کھجوریں اور دودھ مجھے دیا اور کہا کھاؤ پیو اور جا کے سو جاؤ۔ میں نے کہا تو یہ جَو کون پیسے گا؟ نہ پِیسے تو مالک صبح بہت مارے گا۔ اس نے کہا تم سو جاؤ یہ پسے ہوئے مجھ سے لے لینا۔۔ بلال سو گئے اور حضور نے ساری رات ایک اجنبی حبشی غلام کے لئے چکی پیسی۔ صبح بلال کو پسے ہوئے جو دیے اور چلے گئے۔ دوسری رات پھر ایسا ہی ہوا، دودھ اور دوا بلال کو دی اور ساری رات چکی پیسی۔۔ ایسا تین دن مسلسل کرتے رہے جب تک کہ بلال ٹھیک نہ ہو گئے۔۔ یہ تھا وہ تعارف جس کے بطن سے اس لافانی عشق نے جنم لیا کہ آج بھی بلال کو صحابیءِ رسول بعد میں، عاشقِ رسول پہلے کہا جاتا ہے۔آپ نے حضور کے وصال کے بعد اذان دینا بند کر دی کیونکہ جب اذان میں ’أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘ تک پہنچتے تو حضور کی یاد میں ہچکیاں بندھ جاتی تھیں اور زار و قطار رونے لگتے تھے۔ ایثار اور اخوت کا یہ جذبہ اتنا طاقتور ہے۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔۔ آمین۔ ____📝📝📝____ منقول ۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔