مرنے سے پہلے ابا جی کی زیارت : ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ کی بیٹی بیمار ہوئی، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا، جوان العمر بیٹھی تھی ماں نے پوچھا کوئی آخری تمنا کوئی آخری خواہش؟ کہا ابا جی کی زیارت کو جی چاہتا ہے ماں نے خط لکھوادیا، جوان العمر بیٹی کا خط پردیس میں ملا کہ میں اپنے عمر کی آخری گھڑیاں گن رہی ہوں، دل کی آخری تمنا ہے کہ ابا حضور تشریف لائیں تو میں آپ کا دیدار کرلوں کتنی بڑی بات تھی، حضرت کو وہ خط ملا حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ نے اس خط کے پشت پر دو شعر لکھ کر وہ خط واپس بھیج دیا، بیٹی کو اس حال میں کیا جواب لکھافرماتے ہیں: میں تو مجبور ہوں اللہ تو مجبور نہیں تجھ سے میں دور ہوں وہ تو مگر دور نہیں تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن اس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں یہ کیفیت نصیب ہوجائے تو زندگی کا مزہ آ جائے اللہ رب العزت ہمارے لیے اپنی یہ محبت آسان فرما دے ۔ آمین ( خطبات ص ۱۱۵ - ۱ ) ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب : اللہ کی محبت پیدا کرنے کا طریقہ صفحہ نمبر : ۹۴ تالیف : حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

جماعت اور مسجد کا اہتمام

جماعت اور مسجد کا اہتمام

مجھے یاد ہے کہ دیوبند میں جب میری عمر تقریباً دس بارہ سال تھی ، ایک دن فجر کی نماز کے وقت سخت آندھی موسلا دھار بارش اور گرج چمک کی بنا پر والد صاحب ( مفتی محمد شفیع صاحب ) مسجد تشریف نہ لے جاسکے اور نماز گھر میں ہی ادا فرمائی، اُدھر دادا ابا جو مسجد کے عاشق اور نماز باجماعت کے شیدائی تھے، اسی حالت میں پائینچے چڑھا کر مسجد کی جانب روانہ ہو گئے، اور والد ماجد کو بارش کی وجہ سے ان کے جانے کا پتہ نہ چل سکا، دادا ابا جب مسجد پہونچے تو دیکھا کہ بجز مؤذن کے کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے، خیر مؤذن کے ساتھ دو آدمیوں کی جماعت ہوئی ، اور بعد نماز جب دادا ابا گھر لوٹنے لگے تو سب محلے والوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر ساتھ لیتے ہوۓ سخت غصے میں گھر پہنچے، اور والد صاحب کو بلا کر سب کے سامنے اس قدر ڈانٹا کہ والد صاحب اور سب محلے والے دم بخود رہ گئے، اور فر مایا: افسوس ہے کہ مجھے اپنی زندگی میں ایسا دن دیکھنا پڑا ، جس کی مجھ کو تم سے توقع بھی نہیں تھی، آج اگر میں نہ پہونچتا تو مسجد ویران ہو جاتی ، اور جماعت نہ ہوتی ، میرے بعد تو تم اس مسجد کو ویران ہی کر دو گے، مجھے افسوس تو سب پر ہے لیکن سب سے زیادہ اپنے اس بیٹے نمونے کے انسان حصہ اول پر ہے، اور بھی نہ جانے کیا کیا کہا؟ دادا ابا کو دنیا میں والد صاحب سے بڑھ کر کوئی عزیز نہ تھا، مگر ترک جماعت پر اس قدر گرفت فرمائی اور تمام محلہ والوں اور چھوٹی اولاد کے سامنے، پھر بھی حضرت والد صاحب کی انتہائی سعادت مندی تھی کہ انہوں نے ذرا بھی نا گواری کا اظہار نہیں فرمایا ، بلکہ ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرتے ہوۓ سب کے سامنے معافی مانگی ، بعد میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر اس دن اتنی لتاڑ نہ پڑتی تو عمر بھر احساس نہ ہوتا کہ ہم سے کوئی غلطی سرزد ہوئی تھی ۔ (البلاغ مفتی اعظم نمبر ۔ ج ۲ ص ۱۰۶۹) ___________📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔