*سوشل میڈیا ایک خاموش دشمن* گھر کے دروازے مضبوط، کھڑکیوں پر جالیاں، باہر کی دنیا سے ہر ممکن بچاؤ۔ باپ نے بیٹیوں اور بیوی کو ہر طرح کی آفت سے بچانے کے لیے دیواریں کھڑی کر دیں، لیکن وہ یہ بھول گیا کہ فتنے اب دروازے سے نہیں آتے، بلکہ ہاتھوں میں پکڑے چھوٹے سے اسکرین کے ذریعے داخل ہوتے ہیں۔ آج سوشل میڈیا کا جال ہر گھر میں پھیل چکا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ ان کے بچے محفوظ ہیں، کیونکہ وہ گھر سے باہر نہیں نکلتے، مگر وہ نہیں جانتے کہ اجنبی اور نامحرم خود ان کے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ہر لمحہ ایک نئی دوستی، ایک نیا تعلق، ایک نیا دھوکہ۔ یہی وہ راستہ ہے جس نے نہ جانے کتنے گھروں کو اجاڑ دیا۔ محبت کے نام پر ناجائز تعلقات، جھوٹے وعدے، عزتوں کی نیلامی، بلیک میلنگ، اور بالآخر خاندانوں کی بربادی۔ وہ بیٹیاں جو کبھی گھر کی چار دیواری میں سب سے زیادہ محفوظ سمجھی جاتی تھیں، آج سوشل میڈیا کے ذریعے شکار ہو رہی ہیں۔ ذمہ داری کس کی؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔" (بخاری و مسلم) والدین کی ذمہ داری صرف کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے تک محدود نہیں۔ انہیں اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت بھی کرنی ہے۔ اگر والدین نے یہ سمجھ لیا کہ ان کی ذمہ داری بس مادی ضروریات پوری کرنے تک ہے، تو یاد رکھیں کہ ایک دن یہی اولاد ان کی آنکھوں کے سامنے برباد ہو سکتی ہے۔ کیا کیا جائے؟ بیٹیوں کو شعور دیں کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ سوشل میڈیا پر ملنے والے لوگ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں، جو وقتی الفاظ سے دل بہلانے آتے ہیں اور پھر رسوائی چھوڑ جاتے ہیں۔ ماں باپ خود بھی محتاط رہیں۔ اگر والدین خود ہی موبائل اور سوشل میڈیا کے عادی ہوں گے، تو اولاد کیسے بچ سکے گی؟ دینی تربیت پر توجہ دیں۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیٹیوں کو حیا، عزت اور پردے کی اہمیت سمجھائیں۔ اعتماد کا رشتہ بنائیں۔ ایسا نہ ہو کہ خوف کی دیواریں بیٹی کو والدین سے ہی دور کر دیں۔ اس کے مسائل سنیں اور انہیں پیار و حکمت سے حل کریں۔ حقیقی حفاظت دروازے بند کرنے سے فتنے نہیں رکتے، بلکہ دلوں کو تقویٰ سے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر بیٹی کے دل میں حیا اور خوفِ الہیٰ ہوگا، تو کوئی بھی سوشل میڈیا کا فتنہ اسے بہکا نہیں سکے گا۔ اس لیے اصل توجہ موبائل چھیننے کے بجائے دلوں کو ایمان سے جوڑنے پر ہونی چاہیے۔ اے ماں باپ! حفاظت صرف دیواروں سے نہیں، دلوں سے بھی کی جاتی ہے۔ *تحریر کو صدقہ جاریہ اور اللہ کی رضا کی نیت سے اپنے پیاروں کے ساتھ اور مقامی گروپس میں شیئر کیجئے ہو سکتا ہے آپ کی تھوڑی سی محنت یا کوشش سے اللہ پاک کسی کی زندگی بدل دے*

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بے مثال سادگی اور تواضع

بے مثال سادگی اور تواضع

حضرت مولنا سید اصغر حسین رحمہ اللہ تعالی ( جو اپنے ملنے والوں میں حضرت میاں صاحب کے نام سے مشہور تھے ) دار العلوم دیوبند کے اساتذہ کرام میں سے تھے جو شہرت اور نام و نمود سے ہمیشہ کوسوں دور رہے، زندگی بھر اسلامی علوم کی تدریس کی خدمت انجام دی، اور ہزارہا طلباء کو اپنے علم سے سیراب کیا، آج برصغیر پاک و ہند کے نامور علماء کرام دیوبند میں شاید کوئی نہ ہو جو ان کا بالواسطہ یا بلا واسطہ شاگرد نہ ہو۔ انہوں نے متعدد چھوٹی بڑی تصانیف بھی چھوڑی ہیں، موضوعات بھی اچھوتے اور زبان بھی اتنی شگفتہ کہ آج سے سو سال کی تحریروں میں ایسی گفتگو کم ملتی ہے۔ علم و فضل کے بلند مقام کے باوجود سادگی تواضع اور مسکنت کا عالم یہ تھا کہ دیکھنے والا ان کے بلند مقام کو پہچان ہی نہیں سکتا تھا وہ دیو بند (ضلع سہارنپور ) کے ایک چھوٹے سے محلے میں مقیم تھے ، اور کچے مکان میں رہتے تھے۔ ہر سال جب برسات کا موسم آتا تو یہ کچا مکان جگہ جگہ سے گر جاتا ، اور برسات گزرنے کے بعد کافی وقت اور پیسے اس کی مرمت پر خرچ کرنا پڑتا تھا۔ حضرت مولنا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کے خاص شاگرد تھے، لیکن خصوصی تعلق کی بناء پر حضرت نے انہیں اپنے آپ سے بہت بے تکلف بھی بنایا ہوا تھا، ایک دن انہوں نے حضرت میاں صاحب سے کہا کہ آپ کو ہر سال اپنے مکان کی مرمت کرانی پڑتی ہے، جس میں پریشانی بھی ہوتی ہے، وقت بھی لگتا ہے، اور خرچ بھی خاصا ہو جاتا ہے اگر آپ ایک مرتبہ مکان کو پکا بنوالیں تو اس روز روز کی پریشانی سے نجات مل جائے۔ حضرت میاں صاحب کی طبیعت میں ظرافت بھی بہت تھی ، انہوں نے مفتی صاحب کی یہ تجویز سن کر شروع میں بڑی تعریف اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: واہ مفتی صاحب آپ نے کیسی عقل کی بات کہی، ہم نے ساری عمر گزار دی، بوڑھے ہو گئے اور اب تک ہماری عقل میں یہ بات نہیں آئی۔ مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب نے یہ بات اتنی مرتبہ فرمائی کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا، لیکن بالآخر میں نے عرض کیا کہ حضرت میرا مقصد تو وہ حکمت معلوم کرنا تھا جس کی وجہ سے آپ نے مالی استطاعت کے باوجود اب تک مکان کو پکا نہیں بنوایا، اب مجھے مزید شرمندہ کرنے کے بجائے حقیقی وجہ بیان فرما دیجیے۔ حضرت میاں صاحب شروع میں ٹالتے رہے، لیکن جب والد صاحب نے زیادہ اصرار کیا تو مفتی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر مکان کے دروازے تک لے آئے اور فرمایا دیکھو! اس گلی کے دائیں بائیں دونوں طرف دیکھو، گلی کے اس سرے سے اُس سرے تک کیا کوئی مکان پکا نظر آتا ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا نہیں۔اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ بتاؤ جب میرے سارے پڑوسیوں کے مکان کچے ہیں، تو پوری گلی میں تنہا میں اپنا مکان پکا بنا کر کیا اچھا لگوں گا ؟ اور اتنی استطاعت مجھ میں نہیں کہ میں اپنے سارے پڑوسیوں کے مکانات پکے بنوا سکوں، اس لیے میں اپنا مکان بھی پکا نہیں بنواتا کیوں کہ اپنے پڑوسیوں کے مقابلہ میں اپنی کوئی امتیازی شان بنانا مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ____📝📝📝____ کتاب : ماہنامہ علم و عمل لاہور (مئی ۔ ۲۰۲۵)۔ صفحہ نمبر : ۶ ۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔