خدارا ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﻭ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮑﻠﻮ

ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﯼﺳﮩﯿﻠﯽ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﯾﺎ ؟؟؟ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽﻧﮩﯿﮟ!!!! ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧﺍﭼﮭﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ؟؟؟ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻧﮩﯿﮟ؟؟؟ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺯﮨﺮﯾﻼ ﺑﻢ ﮔﺮﺍﮐﺮ ﻭﮦ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﻭ ﭘﯿﭽﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﯽ ﺑﻨﯽ!!!! ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮﺑﻌﺪ ﻇﮩﺮ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﺎﺷﻮﮨﺮ ﮔﮭﺮ ﺁﯾﺎﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼﮐﺎ ﻣﻨﮧ ﻟﭩﮑﺎ ﮨﻮﺍﭘﺎﯾﺎ، ﭘﮭﺮﺩﻭﻧﻮﮞﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﻮﺍﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮ ﻟﻌﻨﺖ ﺑﮭﯿﺠﯽ ﻣﺎﺭﭘﯿﭧ ﮨﻮﺋﯽﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﻃﻼﻕ ﺩﮮﺩﯼ!!!! ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﺮﺍﺑﻠﻢ ﮐﯽ ﺷﺮﻭﻋﺎﺕ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ؟؟؟ ﺍﺱ ﻓﻀﻮﻝ ﺟﻤﻠﮯ ﺳﮯﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﯿﺎﺩﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﺁﺋﯽ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺗﮭﺎ!!!! اسی طرح زید نے حامد سے پوچھا!! تم کہاں کام کرتے ہو؟؟ حامد : فلاں دکان میں!! ماہانہ کتنی تنخواہ دیتاہے؟؟ حامد:18000 روپے!! زید: 18000 روپے بس،تمہاری زندگی کیسے کٹتی ہے اتنے پیسوں میں؟؟ حامد ۔گہری سانس کھینچتے ہوئے ۔ بس یار کیا بتاوں!! میٹنگ ختم ہوئی!! کچھ دنوں کے بعد حامد اب اپنے کام سے بیزار ہوگیا ، اور تنخواہ بڑھانے کی ڈیمانڈ کردی، جسے مالک نے رد کردیا، نوجوان نے جاب چھوڑ دی اور بے روزگار ہوگیا،پہلے اس کے پاس کام تھا اب کام نہیں رہا!!! ایک صاحب نے نے ایک شخص سے کہا جو اپنے بیٹے سے الگ رهتا تها!! تمہارا بیٹا تم سے بہت کم ملنے آتا هے کیا اسے تم سے محبت نہیں؟؟ باپ نے کہا:: بیٹا مصروف رهتا هے، اس کے کام کا شیڈول سخت ہے .اسکے بیوی بچے هیں.اسے بہت کم وقت ملتا ہے!! پہلا آدمی بولا:: واہ یہ کیا بات هوئی.تم نے اسے پالا پوسا اسکی هر خواهش پوری کی اب خود کو خوامخواہ سمجهاتے هو کہ اس کو مصروفیت کی وجہ ملنے کا وقت نہیں ملتا یہ تو نہ ملنے کا بہانا ہے!! اس گفتگو کے بعد:: باپ کے دل میں بیٹے کے لئے خلش سی پیدا هوگئی.بیٹا جب بهی ملنے آتا وہ یہ هی سوچتا رهتا کہ اسکے پاس سب کے لئے وقت هے سوائے میرے! یاد رکهیے!زبان سے نکلے الفاظ دوسرے پر بڑا گہرا اثر ڈال سکتے هیں! ﺑﮯ ﺷﮏﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ! ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﻟﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ! ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟﺧﺮﯾﺪﺍ؟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﯾﮧ ﮐﯿﻮﮞﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ؟ ﺗﻢ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫﭘﻮﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯿﺴﮯ ﭼﻞﺳﮑﺘﯽ ﮨﻮ؟ ﺗﻢ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﺎﻥﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺑﯿﺸﺘﺮﺳﻮﺍﻻﺕ ﻧﺎﺩﺍﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﻼﻣﻘﺼﺪ ﮨﻢ ﭘﻮﭼﮫ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺒﮑﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻔﺮﺕ ﯾﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺑﯿﺞ ﺑﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ! آج کے دور میں ہمارے ارد گرد یا گھروں میں جو فسادات ہو رہے ہیں، ان کی جڑ تک جایا جائے تو اکثر اس کے پیچھے کسی اور کا ہاتھ ہوتا ہے ،وہ یہ نہیں جانتے کہ نادانی میں یا جان بوجھ کر بولے جانے والے جملے کسی کی زندگی کو تباہ کر سکتے ہیں! ﻓﺴﺎﺩ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻧﺎ ﺑﻨﻮ!! ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟﺍﻧﺪﮬﮯ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﻭﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﺑﻦﮐﺮ ﻧﮑﻠﻮ 💐💐💐💐💐💐💐🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹 صدقہ جاریہ کے لیے یہ تحریر شئیر ضرور کریں۔ ____________📝📝_____________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

اختلاف کے باوجود بے نظیر اتحاد:

حضراتِ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ میں بعض مسائل کا اختلاف رہا ہے ؛ مگر ایک دوسرے کے احترام میں کبھی فرق نہیں آیا ، کون نہیں جانتا کہ خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کے مسئلے میں صحابۂ کرام میں شدید اختلاف ہوا اور اس کی بنا پر جنگ بھی ہوئی ؛ مگر کیا مجال کے ان کے اس اختلاف سے ایک دوسرے کے احترام میں فرق آجائے ۔ چناںچہ عین جنگ کے موقعے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو روم کی عیسائی سلطنت کی طرف سے جس کا سربراہ ’’ قیصر ‘‘ تھا خط ملا ۔ اس میں لکھا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے امیر ( حضرت علی رضی اللہ عنہ ) نے آپ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا اور تم پر ظلم کر رہے ہیں ، اگر آپ چا ہیں ؛ تو ہماری فوج آپ کی مددکو بھیچ دیں گے ۔ اگر ہم آپ کی جگہ ہو تے ، تو مخالف کی تو ہین و تذلیل اور اس کو شکست دینے کے لیے فوج منگوالیتے ۔ مگر گوش ہوش سے سننے کے قابل ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قیصر روم کو جواب یہ دیا : ’’ اے نصرانی کتے ! تو ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے ؟ ! یاد رکھ اگر تو نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف ترچھی نگاہ سے بھی دیکھا ، تو سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کا سپا ہی بن کر تیری آنکھ پھوڑنے والا میں ہوں گا ۔ ‘‘ ایسے سینکڑو ں واقعات ہیں ، یہاں مثال کے طور پر ایک نقل کیاگیا ہے ، غرض یہ ہے کہ امت کے اتحاد کے لیے لا زم ہے کہ وہ ایک دوسرے کا احترام اور اکرام کریں اور اپنے اختلا فات کو حدود سے آگے نہ بڑھنے دیں اور آپس میں حسنِ سلوک کا معاملہ کریں ۔ (واقعات پڑھئے اور عبرت لیجئے)