حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ عدالت میں

 ایک مرتبہ حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ پر غداری کا مقدمہ چلا اور فرنگی کی عدالت ہال کراچی میں ان کی پیشی ہوئی، مولانا محمد علی جوہر اور بہت سارے دوسرےاکابرین بھی وہاں جمع تھے، فرنگی نے بلایا اور کہا کہ حسین احمد! یہ جو تم نے فتویٰ دیا ہے کہ انگریز کی فوج میں شامل ہونا حرام ہے۔ اس کی اجازت نہیں، تمہیں پتا ہے کہ اسکا نتیجہ کیا ہوگا؟ حضرت نے فرمایا کہ ہاں مجھے پتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے، اس نے پوچھا کہ کیا نتیجہ ہے؟ حضرت کے کندھے پر ایک سفید چادر تھی، حضرت نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ اس کا نتیجہ ہے، فرنگی نے کہا کہ کیا مطلب؟ فرمایا کہ کفن ہے، میں اپنے ساتھ لے کر آیا ہوں تاکہ تم اگر مجھے پھانسی بھی دے دو گے تو کفن میرے پاس ہوگا، مولانا محمد علی جوہر نے حضرت کے پاؤں پکڑ لیے اور عرض کیا کہ حضرت! تھوڑا سا ذومعنی سا جواب دے دیں جس سے آپ بچ جائیں، کیونکہ ہمیں آپکی بڑی ضرورت ہے، آپ ہمارے سر کا تاج ہیں، آپ جیسے اکابر ہمیں پھر نہیں ملیں گے مگر حضرت مدنیؒ کی اس وقت عجیب شان تھی۔سبحان اللہ فرنگی کہنے لگا: حسین احمد! تمہیں کفن لانے کی کیا ضرورت تھی؟ جس کو حکومت پھانسی دے اس کو کفن بھی حکومت دیتی ہے، حضرت مدنیؒ نے فرمایا: اگرچہ کفن حکومت دیتی ہے، لیکن میں اپنا کفن اس لیے لایا ہوں کہ فرنگی کے دیے ہوئے کفن میں مجھے اللہ کے حضور جاتے ہوئے شرم آتی ہے، میں قبر میں تمہارا کفن بھی لے کر جانا نہیں چاہتا۔ ہمارے اکابر کیا استقامت کے پہاڑ تھے۔ اللہ اکبر شجرہ نسب سے حسین احمد مدنی سید ہیں۔۔۔اور حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی اولاد میں سے ہیں۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ایک عرب ڈاکٹر مذھبی اسکالر کی طالب علم کو اہم نصیحت

ایک عرب ڈاکٹر مذھبی اسکالر کی طالب علم کو اہم نصیحت

سوال کیا گیا: ابتدائی طالب علم کے لیے کوئی مختصر نصیحت؟ میں نے بارہا نصیحت کی ہے، مگر جانتا ہوں کہ ہر نصیحت کا پہلا مخاطب خود میرا دل ہے۔ لیکن شاید تکرار میں حکمت ہو اور فائدہ پہنچے: جان لو، اے میرے پیارے بیٹے، وہ زمانہ گزر چکا، جب علمِ روایت و درایت کا جامع عالم موجود تھا، جس کے پاس علم کے پیاسے سفر کرتے اور زانوئے ادب تہہ کرتے۔ وہ عہد اب تاریخ کے صفحات میں دفن ہو چکا ہے۔ آج کا دور مشکلات اور ابتلا کا دور ہے، جہاں نااہل پیشوا بن گئے ہیں، جاہل خطیب، قصہ گو واعظ، اور فریب کار لوگ نمایاں ہیں۔ معاملات ان لوگوں کے سپرد ہو چکے ہیں جو ان کے اہل نہ تھے، سوائے اُن کے جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے محفوظ رکھا۔ ایسے حالات میں، اے طالب علم، اپنے گھر کو اپنی پناہ گاہ بناؤ اور اپنی لائبریری کو اپنا دائمی قیدخانہ۔ اس میں خود کو اس وقت تک محصور کر لو، جب تک موت تمہیں آ نہ لے یا قریب نہ ہو جائے۔ لیکن یاد رکھو، اگر تم نے مطالعے کے لیے صحیح کتابوں کا انتخاب کیا، تو یہی قیدخانہ تمہارے لیے غارِ حراء بن جائے گا، جہاں سے نبوت کی روشنی چمکی اور زمین کو عدل و حق سے منور کر دیا۔ کتابوں کو تھام لو، کہ یہی تمہاری نجات کی کشتی ہیں۔ ان کے ذریعے تم علم و حکمت کے بحروں میں سفر کرو گے اور دنیا کے ان گوشوں تک پہنچو گے جہاں جہالت کے سائے چھائے ہیں۔ کبھی اپنی ذات کو کمتر نہ جانو اور اپنے وجود کو معمولی نہ سمجھو۔ جان لو کہ تم اور ایک عظیم شخصیت کے درمیان فرق صرف ارادے کی قوت اور مقصد کے تعین کا ہے۔ یاد رکھو، تاریخ میں ایسے ادوار بھی آئے ہیں جو ایک انسان کے نام سے منسوب ہو گئے، جیسے فولٹیر۔ پس، خود کو وہ شخص بناؤ جو تاریخ کا عنوان بن سکے۔ اپنے آپ کو وہ مہدی سمجھو جسے دنیا کی رہنمائی کرنی ہے، اور کسی دوسرے کے انتظار میں وقت ضائع مت کرو۔ اور یہ بھی یاد رکھو، اگر تم واقعی اپنے اساتذہ کے حق میں وفادار ہو، تو تم پر لازم ہے کہ اُن سے آگے کے فکری آفاق تک پہنچو، اُن منزلوں تک جاؤ جہاں اُن کے قدم نہ پہنچے، اُن جہانوں کو کھوجو جن کا اُنہوں نے تصور تک نہ کیا۔ اور خبردار، مایوس کرنے والوں اور جھوٹی باتوں کے پروپیگنڈہ کرنے والوں سے دور رہو۔