خدمت کا اخلاقی پہلو: ایک عورت کی کہانی

شیخ محمد راوی سے ایک عورت نے سوال پوچھا کہ ان کے شوہر کی والدہ بیمار رہتی ہیں۔ شوہر تقاضا کرتا ہے کہ میں ان کے ماں کی خدمت کروں اور  مجھ سے یہ سب نہیں ہوتا۔ کیا مجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب ہے؟ شیخ نے جواب دیا نہیں تجھ پر شوہر کے ماں کی خدمت ہرگز واجب نہیں ہے ہاں البتہ تمہارے شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی ماں کی خدمت کرے۔ پھر شیخ نے تین حل پیش کیے پہلا حل والدہ کو گھر لیکر آئیں اور دن رات آپ کے شوہر اور اس کے بچے اپنی ماں اور دادی کی خدمت کرے ان پر یہ واجب ہے یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔ دوسرا حل والدہ کو الگ گھر میں رکھیں اور انکی دیکھ بھال خدمت و خبر گیری کے لیے وہاں جاتا رہے اگر والدہ یہ تقاضا کرے کہ رات ان کے سرہانے گزارے تو ماں کے پاس رات رکنا ان پر واجب ہے، یاد رکھیں آپ پر واجب نہیں ہے۔ تیسرا حل والدہ کی دیکھ بھال کے لئے ایک نرس رکھ لیں اگر نرس کے لیے تنخواہ دینے میں حرج ہو تو گھر کے اخراجات کم کرکے نرس کی تنخواہ دے، نرس کی موجودگی میں والدہ کے پاس آتے جاتے فتنے میں پڑنے کا خطرہ ہو نرس سے شادی کرنا واجب ہوگا، اس طرح وہ تین نیکیوں کو جمع کرے گا دوسری شادی کا اجر، ماں کی خدمت کا اجر اور فتنے سے بچنے کا اجر ۔ البتہ آپ پر شوہر کے ماں کی خدمت واجب نہیں ہے، لہذا آپ عزت کے ساتھ اپنے گھر رکی رہیں۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد عورت بولی، شیخ صاحب شوہر کی ماں بھی میری ماں جیسی ہے واجب نہیں تو مستحب سہی میں خود اسکی خدمت کروں گی۔ منقول

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یہ سب دین کے شعبے ہیں

یہ سب دین کے شعبے ہیں

لیسٹر برطانیہ میں علماء کرام کی محفل میں ایک دفعہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق ہردوئی صاحب رح نے فرمایا کہ فرض کرو انڈیا کے کسی گاؤں میں کسی بھاری جسم والے شخص کا انتقال ہوگیا جون جولائی کی گرمی ہو قبرستان کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ہو اور جنازہ اٹھانے والے صرف چار آدمی ہوں راستے میں ایک مسافر شخص ملا اس نے اپنا سامان ایک جانب رکھا اور جنازے کو کندھوں پر اٹھانے والوں کے ساتھ شامل ہوگیا۔ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رح نے علماء سے پوچھا ان چار آدمیوں کو اس مسافر شخص کے آنے سے خوشی ہوگی یا تکلیف؟ سب علماء کرام نے کہا خوشی ہوگی۔حضرت مولانا نے مزید فرمایا کہ یہ پانچوں آدمی تھوڑا آگے بڑھے تو ایک اور مسافر نظر آیا اس نے بھی اپنا سامان ایک سائیڈ پر رکھا اور ان پانچوں آدمیوں کے ساتھ جنازے کو کندھا دینے کے لئے شریک ہوگیا حضرت رح نے پھر علماء کرام سے پوچھا بتاؤ کہ اس چھٹے آدمی کے آنے سے پہلے پانچ آدمی خوشی محسوس کریں گے یا تکلیف؟ سب نے کہا خوشی۔تو پھر حضرت رح نے فرمایا کہ اس وقت ہم سب بھی دین کی ذمہ داری کندھوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں دین کی خدمت کر رہے ہیں جب یہ بات ہے تو ہمیں ایک دوسرے کے کام کو دیکھ کر خوش ہونا چاہئے اس لئے کہ ہم سب کا مقصد ایک ہے۔تدریس تصنیف تبلیغ جھاد سیاست تصوف درس قرآن ودرس حدیث یہ سب دین کے شعبے ہیں اگر ہم سب ایک دوسرے کے رفیق ہوتے تو دنیا کا نقشہ کچھ اور ہوتا مگر شیطان ہمیں رفیق بننے نہیں دیتا ہمیشہ ہمیں ایک دوسرے سے متنفر کرتا رہتا ہے سیرت کا ایک پہلو اتفاق بھی ہے جو نظر انداز ہورہا ہے۔