بادشاہ وزیر اور تین شرائط

ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط ۳ سوالوں کی صورت میں بتائیں ۔ سوال نمبر ( ۱ ): دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے ؟ سوال نمبر (۲) : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے ؟ سوال نمبر (۳) : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے ؟ بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی ۔ وزیر نے سب سے پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں ، کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا ۔ اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا، لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہو گیا۔ چلتے چلتے رات ہو گئی ، اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا ۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا ، وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کے جواب کچھ یوں دیے : دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔ دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے ۔ تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا ؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے ۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے انکار کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا ۔ وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا تو کسان نے کہا کہ : دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے ___________📝📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اسلامک ٹیوب پرو ایپ

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

کلمہ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ہے -

کلمہ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ہے -

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮭﮯ، ﺫﮬﻦ ﺍﺳﻼﻣﯽ، ﭼﮩﺮﮦ ﻣﮩﺮﮦ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ، ﮨﻢ ﺫﮬﻦ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ، ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ انگلینڈ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﻐﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻢ ﺗﮭﯿﮟ! ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﯽ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ. ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ دﻭﭘﭩﮧ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﭼﻮﺭﯼ ﻣﯿﻢ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﮐﻮ دیکھتیں ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻮﺭﯼ ﻣﯿﻠﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ. ﺩﻭﻟﮩﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﭘﮭﺮﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﺎ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﺳﮯ ﻣﯿﻢ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﻢ ﺗﮭﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺍﯾﺘﺎً ﭼﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭦ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ، ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ ﻟﯿﺘﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﻢ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ. ﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ. ﺻﺮﻑ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐِﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ! ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ، ﻣﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﻢ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﮩﺮ ﺛﺒﺖ ﮐﺮﺗﯿﮟ! ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭼﮧ میگوئیاں ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﮔﺮﻣﯿﺎﮞ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻧﯿﮑﺮ ﭘﮩﻨﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ، ﺍﺑﺎﺟﯽ نے ﺗﻮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ﺍﻣﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﮑﺘﯽ ﺭﮨﺘﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ! ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﻭ ﮐﯿﻨﺒﺮﮮ ﮈﺍﻧﺲ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺩﻝ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ، ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﮔﻮﺭﯼ ﻋﯿﺪ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﺮﺳﻤﺲ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ ﺗﺰﮎ ﻭ ﺍﺣﺘﺸﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺎﺗﯽ ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ " ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ، ﺑﭽﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺧﺘﻨﮯ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ، ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮐﮭﺴﯿﺎﻧﯽ ﺳﯽ ﮬﻨﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﻟﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ'' ﮈﺍﻧﺲ، ﻣﯿﻮﺯﮎ، ﻓﻠﻤﯿﮟ، ﮐﺎﮎﭨﯿﻞ ﭘﺎﺭﭨﯿﺰ، ﮐﺮﺳﻤﺲ، ﺳﺮﻋﺎﻡ ﺑﻮﺱﻭﮐﻨﺎﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﮯ، ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ، ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺳﮩﯿﻠﯿﺎﮞ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ۔ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﯿﮟ ﭘﮩﻦ ﭘﮩﻦ کر ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯿﮟ، ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻤﻌﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ، ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺟﮕﮧ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻡ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺟﯿﻨﺰ ﺷﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺳﺎ ﮈﺍﻝ ﻟﯿﺘﯽ۔ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮐﮧ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"!!!!!! 🔷"ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ" ﺑﮭﯽ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺰﺍﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﯿﺎﮦ ﻻﺋﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ، ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻋﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﺎ، ﺍﺗﻨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺍﺗﻨﯽ ﭼﭩﯽ.. "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ"!! ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ جرأت ﻧﮧ ﮐﯽ. ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﻟﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮﮌﮮ، ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﻮﮌﮮ، ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﻗﻮﻡ ﺧﻮﺵ ﮨﯽ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ!! ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ. ﻟﻮﮒ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺷﺮﮎ ﻭ ﮐﻔﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ، ﮨﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﺎ، ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ!! ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﮞﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ھماری بے راہ روی ﮐﻠﻤﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ بہت ﮐﭽﮫ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ. ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ... اپنی زندگی میں اسلام لانے کی کوشش کیجئے ورنہ ھم نے بھی بس کلمہ ہی پڑھا ھوا ہے. _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔