کمال ہے بھئی!

ہمارے گھر کے قریب ایک بیکری ہے۔ اکثرشام کے وقت کام سے واپسی پر میں وہاں سے صبح ناشتے کے لئے کچھ سامان لے کے گھر جاتا ہوں۔ آج جب سامان لے کے بیکری سے باہر نکل رہا تھا کہ ہمارے پڑوسی عرفان بھائی مل گئے۔ وہ بھی بیکری سے باہر آرہے تھے۔ میں نے سلام دعا کی اور پوچھا. "کیا لے لیا عرفان بھائی؟" کہنے لگے۔ "کچھ نہیں حنیف بھائی! وہ چکن پیٹس تھے اور جلیبیاں تھیں بیگم اور بچوں کے لئے" میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ "کیوں..آج کیا بھابھی نے کھانا نہیں پکایا" کہنے لگے۔ "نہیں نہیں حنیف بھائی! یہ بات نہیں ہے... دراصل آج دفتر میں شام کے وقت کچھ بھوک لگی تھی تو ساتھیوں نے چکن پیٹس اور جلیبیاں منگوائیں ... میں نے وہاں کھائے تھے تو سوچا بیچاری گھر میں جو بیٹھی ہے وہ کہاں کھانے جائے گی.. اس کے لئے بھی لے لوں... یہ تو مناسب نہ ہوا نا کہ میں خود تو آفس میں جس چیز کا دل چاہے وہ کھالوں اور بیوی بچوں سے کہوں کہ وہ جو گھر میں پکے صرف وہی کھائیں" میں حیرت سے ان کا منہ تکنے لگا کیونکہ میں نے آج تک اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا. میں نے کہا۔ "اس میں حرج ہی کیا ہے عرفان بھائی! آپ اگر دفتر میں کچھ کھاتے ہیں تو بھئی بھابھی اور بچوں کا گھر میں جس چیز کا دل چاہے گا، کھاتے ہونگے" وہ کہنے لگے۔ "نہیں نہیں حنیف بھائی! وہ بیچاری تو اتنی سی چیز بھی ہوتی ہے میرے لئے الگ رکھتی ہے... یہاں تک کہ اڑوس پڑوس سے بھی اگر کسی کے گھر سے کوئی چیز آتی ہے تو اس میں سے پہلے میرا حصّہ رکھتی ہے.. بعد میں بچوں کو دیتی ہے... اب یہ تو خود غرضی ہوئی نا کہ میں وہاں دوستوں میں گل چھڑے اڑاؤں" میں نے حیرت سے کہا۔ "گل چھڑے اڑاؤں؟ یہ چکن پیٹس... یہ جلیبیاں... یہ گل چھڑے اڑآنا ہے عرفان بھائی؟ اتنی معمولی سی چیزیں" وہ کہنے لگے۔ " کچھ بھی ہے حنیف بھائی! مجھے تو ڈر لگتا ہے کہ آخرت میں کہیں میری اسی بات پر پکڑ نہ ہو کہ کسی کی بہن بیٹی کو بیاہ کے لائے تھے... خود دوستوں میں مزے کر رہے تھے اور وہ بیچاری گھر میں بیٹھی دال روٹی کھارہی تھی" میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہا.. اور وہ بولے جارہے تھے. "دیکھئے...ہم جو کسی کی بہن بیٹی بیاہ کے لاتے ہیں نا... وہ بھی ہماری طرح انسان ہوتی ہے.. اسے بھی بھوک لگتی ہے... اس کی بھی خواہشات ہوتی ہیں... اس کا بھی دل کرتا ہے طرح طرح کی چیزیں کھانے کا..... پہنے اوڑھنے کا... گھومنے پھرنے کا... اسے گھر میں پرندوں کی طرح بند کردینا... اور دو وقت کی روٹی دے کے اترانا ... کہ بڑا تیر مارا... یہ انسانیت نہیں...یہ خود غرضی ہے... اور پھر ہم جیسا دوسرے کی بہن اور بیٹی کے ساتھ کرتے ہیں... وہی ہماری بہن اور بیٹی کے ساتھ ہوتا ہے" ان کے آخری جملے نے مجھے ہلا کے رکھ دیا... میں نے تو آج تک اس انداز سے سوچا ہی نہیں تھا. میں نے کہا۔ "آفرین ہے عرفان بھائی! آپ نے مجھے سوچنے کا ایک نیا زاویہ دیا" میں واپس پلٹا تو وہ بولے۔ "آپ کہاں جارہے ہیں؟" میں نے کہا۔ " آئسکریم لینے.......... وہ آج دوپہر میں آفس میں آئسکریم کھائی تھی"

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

بادشاہ اور فقیر : ایک سبق آموز واقعہ

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی ۔ اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے ۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکہ چلتا تھا ۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کر کے انھیں بھی فتح کر لیا تھا ۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہو رہی تھی ۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہو چکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے ۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کر لینی چاہیے ۔ یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا ۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکہ جاری کر کے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کر دیتا اور پھر وہ وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کر کے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی ۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا ۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی ۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے ۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کر دیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گو یا فراموش کر بیٹھا تھا ۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہو گیا ۔ اس نے مزید لشکر تیار کر کے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہو گیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے ، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کر دیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہو رہی تھی ۔ اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کر رہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ جنگ میں کام یاب ہو سکتا ہے ۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں طلب کیا ۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کر دیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں آکر خود ملے ۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہو گیا ۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے ۔ ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہو گیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا ۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے ۔ بادشاہ کو غصہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہو چکا تھا ۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ، تو بزرگ نے کہا ، " اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے ، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے ۔ یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا ۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہو سکتا۔ جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کر کے قانع ہو جائے ۔