ایک دینار کا فریب

ایک بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ میرے پاس دنیا جہان کی ہر راحت کا سامان ہے لیکن پھر بھی دل خوش نہیں ، لیکن میرے خادم کے پاس کچھ نہیں ، نہ مال و دولت ، نہ محلات و آسائشات ۔ مگر ہر وقت خوش و خرم رہتا ہے ۔ وزیر نے کہا کہ اس پر 99 کا قاعدہ جاری فرمائیں ۔ کیا مطلب 99 کے قاعدے کا ؟ وزیر نے کہا کہ رات 99 دینار ایک تھیلی میں ڈال کر اس کے دروازے پہ لٹکا دیں لیکن اوپر لکھ دیں کہ یہ 100 دینار میری طرف سے تمہیں ہدیہ ہے ۔ دروازے پہ آواز لگا کر واپس آجائیں ۔ پھر دن بھر دیکھیے کہ کیا ہوتا ہے ۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کر لیا۔ خادم باہر نکلا، خوشی سے تھیلی اٹھائی اور جلدی جلدی گنے لگا، پتہ چلا ایک دینار کم ہے ، دوبارہ گنتی کی ، مگر پھر بھی 99 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب دروازے کے آس پاس ڈھونڈ نے لگ گیا کہ شاید کہیں گر گیا ہو ، مگر کچھ نہ ملا، تھوڑی دیر بعد بیوی بچے بھی آگئے اور تلاش میں لگ گئے ، یوں پوری رات ایک دینار کی تلاش میں گزار دی صبح وہ کام پہ آیا لیکن چہرہ بجھا ہوا، پریشان ، نیند نہ ہونے کی وجہ سے طبیعت مضمحل اور بوجھل ، روایتی فرحت و انبساط غائب یہ دیکھ کر بادشاہ کو 99 کے قاعدے کا راز سمجھ آگیا ۔ وہ یہ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ 99 نعمتوں کو بھول جاتے ہیں اور ایک مفقود نعمت کے حصول میں جٹ جاتے ہیں ، وہی ہر وقت ہماری سوچ و فکر کا محور اور اسی کیلئے تگ و دو اور محنت ، اس لیے بے شمار نعمتوں کے ہوتے بھی پریشان رہتے ہیں ، ہر حال میں اللہ کریم کا شکر ادا نہیں کرتے ، جو خوش رہنے کی شاہ کلید ہے۔ ___________📝📝📝___________ منقول۔ انتخاب : اِسلامک ٹیوب پرو ایپ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

ایک بزرگ کے جہنم میں جانے کا سبب

ایک بزرگ کے جہنم میں جانے کا سبب

علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ کی کتاب ہے ”الزواجـر عـن اقتراف الكبائر “اس میں انہوں نے ایک واقعہ لکھا ، ایک شخص حج کے ارادے سے گیا اور جب حج کرنے لگا اس نے مکہ میں پوچھا کہ سب سے امانت دار شخص کون ہے؟ تو بتلایا گیا فلاں شخص ہے، تو وہ اس کے پاس گیا اور اپنے ایک ہزار دینار اس کے پاس رکھوا دیئے ، دینار رکھوا کر اپنے حج کے احکامات کو ادا کرنے لگا ، جب حج مکمل ہو گیا تو اس کے گھر گیا تا کہ میں اپنی امانت واپس لے لوں، جب وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ اس شخص کا انتقال ہو گیا ، تو انہوں نے کہا کہ میں نے تو ایک ہزار دینار دیئے تھے اب مجھے میرے دینار کیسے ملیں گے، تو ان کی اولاد نے کہا اس نے تو ہمیں نہیں بتایا کہ اس نے دینا ر کہاں رکھے ہیں ، گھر میں کافی تلاش کیا لیکن دینار نہ ملے۔ تو یہ وہاں کے علماء کے پاس گئے پوچھا کہ میں اتنی بڑی رقم دی تھی اس کا انتقال ہو گیا یہ میری رقم کیسے ملے گی ، تو ایک شخص نے یہ بتایا کہ تم زم زم کے کنویں کے پاس جا کر ایک آواز لگانا نصف رات کے بعد تہجد کے وقت کہنا کہ میں نے فلاں شخص کو امانت دی تھی اگر وہ نیکو کار ہوگا، تو بسا اوقات تجرباتی بات یہ ہے کہ اس کی روح کو اللہ وہاں پہنچادیتا ہے تو وہ جواب دیدیتا ہے۔ تو وہ شخص وہاں گیا اور آواز دی لیکن اس کو جواب نہ ملا، پھر اس نے کہا: مجھے جواب تو نہ ملا تو انہوں نے کہا تو یمن میں جا- وہاں ایک کنواں ہے اس کا نام ہے ”چاہے برہوت“ وہاں جا کر آواز دو، وہاں جہنمیوں کی روحیں جمع ہوتی ہیں، وہاں تمہیں پتہ چل جائے گا۔ یہ شخص وہاں پہنچا، ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں وہاں اس نے آواز دی تو اس کو جواب ملا کہ تمہاری رقم میں نے اپنے گھر میں فلاں جگہ پر دفنائی ہوئی ہے وہاں سے لے لو، تو اس نے پوچھا کہ آخر تم نے دفنائی کیوں ، اپنے رشتہ داروں کو، بیوی، بچوں کے پاس کیوں نہیں رکھوائی، اس نے کہا: مجھے اپنے بچوں پر اعتماد نہیں تھا، میں نے کہا کہیں ایسانہ ہو کہ یہ لوگ خیانت کر لیں، اس لیے میں نے وہاں رکھی ہے، وہاں سے جا کر لے لو۔ اس نے کہا تم تو بڑے نیک آدمی تھے لیکن تمہاری روح کا سامنا مجھے چاہے برہوت پہ ہو رہا ہے، جہاں جہنمیوں کی روحوں کا اجتماع ہوتا ہے، اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں تھا تو بڑا نیک آدمی ، صوم و صلاۃ کا بڑا پا بند تھا: كَانَ لِي أُخْتٌ فَقِيرَةٌ هَجَرتهَا وَكُنت لا أَحْنُو عَلَيْهَا فَعَاقَبَنِي اللَّهُ تَعَالَى. لیکن اللہ نے مجھے اس وجہ سے سزادی کہ میری بہن غریب تھی میں نے اس کے ساتھ تعاون نہیں کیا، قطع رحمی کی ، اللہ نے قطع رحمی کی وجہ سے مجھے جہنم میں ڈال دیا، دیکھیں یہ بڑا نیک شخص تھا، نیکوکاری میں اس کا بڑا چرچا تھا، لوگ امانتیں اس کے پاس رکھواتے تھے، لیکن قطع تعلقی کی وجہ سے عذاب میں گرفتار ہو گیا۔ جیسے زندگی میں صلہ رحمی کا حکم ہے ، اسی طرح دنیا سے جانے کے بعد بھی والدین کے دوستوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے۔ (کتاب : نیک اعمال کو ضائع کرنے والے گناہ- صفحہ : ۲۲۲-۲۲۳- مصنف: مولانا محمد نعمان صاحب۔ ناقل : انس میمن پالنپوری)