‏مگر ہم "حبل اللہ" کو نہیں تھامیں گے

*کتنے مرد حضرات ہیں جن کو بالغ ہوتے ہی "سورۃ المائدہ" کی تفسیر پڑھائی گئی اور کتنی عورتیں ہیں جن کو بالغ ہوتے ہی "سورۃ النور"کی تفسیر پڑھائی گئی۔* ‏جانتا ہوں ،بہت کم ہیں۔ ‏مگر دوسری طرف دیکھیں..! ‏کتنے مرد ہیں جنہوں نے والدین سے بالغ ہونے کے بعد سنا کہ تمہاری کوئی ایسی ویسی بات نہ سنوں اور کتنی عورتیں ہیں جنہوں نے بالغ ہونے کے بعد والدین سے سنا کہ ہماری عزت کی لاج رکھنا، تمہاری ایسی ویسی کوئی بات نہ سنوں ؟ ‏جانتا ہوں یہ تعداد کافی زیادہ ہے۔ ‏کیونکہ ہمارے یہاں "شریعت" نہیں سکھائی جاتی، ‏والدین اور خاندان کی "عزت" و "حرمت" بچانے کا درس دیا جاتا ہے۔ ‏یہ تک نہیں سمجھایا جاتا کہ تم قیمتی ہو... اپنی حفاظت کرنا، ‏مگر بالغ ہوتے ہی کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے، ‏وہ وقت جب انسان پر جذباتی وابستگی کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے، اس وقت آزاد پنچھی کو رسیوں میں جکڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،اور محبت کے متلاشی وہ پنچھی، جن کی رگوں میں جوان خون دوڑ رہا ہوتا ہے وہ زور آزمائی کرتے ہیں، ‏پھر رسی ٹوٹ جاتی ہے، ‏اور کبھی کبھار گلے کا پھندہ بھی بن جاتی ہے۔ ‏اگر "حبل اللہ" یعنی "اللہ کی رسی" یعنی قرآن کے حصار میں اولاد کو اور خود کو رکھتے تو ایسا ہرگز نہ ہوتا کیونکہ وہ رسی بہت مضبوط ہوتی ہے، جو دلوں کو جوڑتی ہے، رشتوں کو جوڑتی ہے اور صراطِ مستقیم پر چلاتی ہے۔ ‏ ‏جوان ہوتی اولاد کو شریعت سکھائیں۔ ‏بیٹے کو سورۃ المائدہ جبکہ بیٹی کو سورۃ النور سکھائیں۔ ‏انہیں بتائیں کہ یہ وقت اگر اللہ پاک کی خاطر گزارا تو مستقبل بہت خوبصورت ہوگا ۔ ‏انہیں بتائیں کہ ان کے پاس بہترین حلال آپشنز موجود ہیں اور انہیں اپنے جذبات حرام تعلقات میں ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ‏انہیں بتائیں کہ ہم مل کر تمہارے لیے بہترین فیصلہ کریں گے جو تمہارے لیے اچھا ہو گا اور جس میں تمہاری خوشی ہو گی۔ ‏انہیں بتائیں کہ حرام ، حلال کی لذت ختم کر دے گا۔ ‏حقوق و فرائض محض مرضی مسلط کرنے کے متعلق نہیں ہیں اور نہ ہی تربیت محض دو تین احکام سنا دینے کا کام ہے۔ ‏اس سسٹم کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ‏کہ والدین اپنی خواہشیں خود پوری نہیں کرتے ‏ان کی خواہشیں بچوں سے جڑی ہوتی ہیں، ‏(اتنے سالوں سے پالا ہے ،کیا مجھ پر اس کا حق نہیں کہ اپنی مرضی کی بہو لاؤں یا مرضی کا داماد چنوں) ‏اپنی زندگی کا فیصلہ خود نہیں کرتے ‏(ان کے والدین نے کیا ہوتا ہے) ‏اس لیے بچوں کی زندگی کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، ‏انہیں اپنے سٹینڈرڈ کی بہو چاہیے ہوتی ،یا پسند کا داماد چاہیے ہوتا۔۔بچوں کی پسند سے فرق نہیں پڑتا۔۔ ‏یہ ترتیب یونہی چلتی رہے گی۔۔۔اور کسی کی زندگی کی ڈور اس کے ہاتھ میں نہیں ہو گی یہ جعلی رسیاں بنتی رہیں گی ٹوٹتی رہیں گی۔ ‏مگر ہم "حبل اللہ" کو نہیں تھامیں گے، ‏کیونکہ اسے تھامنے کے لیے بہت سی چیزیں چھوڑنی ہوں گی۔ ‏جیسا کہ "معاشرہ کی فرسودہ روایات" جو ہماری روحوں کو تباہ کر چکی ہیں۔ یا تو اپنے معاشرے کو راضی کر لو یا الله سبحان و تعالیٰ کو۔۔۔۔!!!

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

یہودی کے شاگرد: ایک طنزیہ حکایت

یہودی کے شاگرد: ایک طنزیہ حکایت

‏ایک یہودی نے روس چھوڑ کر اسرائیل میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت لی اور روس سے روانہ ہوا۔ ائرپورٹ پر اس کے سامان کی تلاشی لی گئی تو لینن کا ایک مجسمہ بر آمد ہوا۔ انسپکٹر نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہودی نے کہا: جناب آپ نے غلط سوال کیا ہے! آپ کو کہنا چاہیے تھا یہ کون ہے؟ یہ لینن ہے جس نے اشتراکیت کے ذریعے روسی قوم کی خدمت کی میں ان کا بڑا فین ہوں اس لیے یادگار کے طور پر ان کا مجسمہ اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔ روسی انسپکٹر بڑا متاثرا ہوا اور کہا: جاو ٹھیک ہے۔ یہودی ماسکو سے تل ابیب ائرپورٹ پر اترا تو ان کے سامان کی تلاشی لی گئی اور وہ مجسمہ بر آمد ہوا تو انسپکٹر نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ یہودی: آپ کا سوال غلط ہے آپ کو کہنا چاہیے تھا کہ یہ کون ہے؟ یہ مجرم لینن ہے یہی وہ پاگل ہے جس کی وجہ سے میں روس چھوڑنے پر مجبور ہوا! اس کا مجسمہ میں یادگار کے طور پر اپنے ساتھ لایا ہوں تاکہ صبح و شام اس کو دیکھ کر اس پر لعنت بھیج سکوں! اسرائیلی انسپکٹر متاثرا ہوا اور کہا: جاؤ ٹھیک ہے۔ یہودی اپنے گھر پہنچا اور مجسمہ نکال کر گھر کے ایک کونے میں سنبھال کر رکھ دیا۔ خیریت سے اسرئیل پہنچنے پر اس کے رشتہ دار ملنے آئے جن میں اس کا ایک بھتیجا بھی تھا۔ بولا: انکل یہ کون ہے؟ یہودی بولا تمہارا سوال غلط ہے تمہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ کیا ہے؟ یہ دس کلو سونا ہے اس کو بغیر کسٹم کے لانا تھا میں نے اس کا مجسمہ بنوایا اور بغیر کسی ٹیکس اور کسٹم کے لانے میں کامیاب ہوا۔ ہمارے سیاستدان اسی یہودی کے شاگرد ہیں۔ سبق چالاکی اور دھوکہ: یہودی نے حالات کے مطابق جوابات دے کر سب کو بیوقوف بنایا، جو سیاستدانوں کی چالاکی کی عکاسی کرتا ہے۔ سماجی تنقید: کہانی طنزیہ انداز میں بتاتی ہے کہ سیاستدان بھی اسی طرح حالات کے مطابق اپنی بات بدلتے ہیں۔