کلمہ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ہے -

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺖ ﺗﮭﮯ، ﺫﮬﻦ ﺍﺳﻼﻣﯽ، ﭼﮩﺮﮦ ﻣﮩﺮﮦ ﻏﯿﺮ ﺍﺳﻼﻣﯽ، ﮨﻢ ﺫﮬﻦ ﭘﺮ ﮨﯽ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﮯ، ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ انگلینڈ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺟﺐ ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﻐﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﯿﻢ ﺗﮭﯿﮟ! ﻣﻮﺻﻮﻑ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺭﻭﺍﯾﺘﯽ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺗﮭﺎ، ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﺧﺒﺮ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﯽ ﺁﮒ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﮭﯿﻞ ﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺟﻨﺎﺏ ﻣﯿﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺭﺷﺘﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺳﻔﺮ ﮐﯿﺎ. ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺳﺮﻭﮞ ﭘﺮ دﻭﭘﭩﮧ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﭼﻮﺭﯼ ﻣﯿﻢ ﺻﺎﺣﺒﮧ ﮐﻮ دیکھتیں ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮈﺭﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻮﺭﯼ ﻣﯿﻠﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ. ﺩﻭﻟﮩﺎ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﻓﺨﺮﯾﮧ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﯽ ﭘﮭﺮﺗﯿﮟ ﮐﮧ ﺑﮭﯿﺎ ﺍﻧﮕﻠﯿﻨﮉ ﺳﮯ ﻣﯿﻢ ﻻﺋﮯ ﮨﯿﮟ، ﺑﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﻢ ﺗﮭﯽ ﺍﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﺶ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﻮ ﻧﮧ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺍﯾﺘﺎً ﭼﺎﺩﺭ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭦ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﻮ ﺩﯾﺎ، ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺘﯽ ﻟﯿﺘﯽ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ ﮐﮧ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﻢ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ. ﮨﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ. ﺻﺮﻑ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﺳﮯ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ، ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐِﯿﺎ ﮨﮯ؟ ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺟﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ! ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻧﻈﺎﻡ ﺗﮭﺎ، ﮐﭽﮫ ﻋﺮﺻﮧ ﮔﺰﺭﺍ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﻧﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ، ﻣﯿﺎﮞ ﮐﮯ ﺁﻓﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﻢ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﺑﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﮩﺮ ﺛﺒﺖ ﮐﺮﺗﯿﮟ! ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﭼﮧ میگوئیاں ﮨﻮﺋﯿﮟ، ﺑﯿﭩﺎ ﺟﯽ ﻧﮯ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﮔﺮﻣﯿﺎﮞ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻧﯿﮑﺮ ﭘﮩﻨﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ، ﺍﺑﺎﺟﯽ نے ﺗﻮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ، ﺍﻣﺎﮞ ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﺗﮑﺘﯽ ﺭﮨﺘﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﮔﺌﯿﮟ! ﺑﯿﭩﮯ ﺳﮯ ﺷﮑﻮﮦ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺍﯾﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﭘﺮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺑﺮﯾﮏ ﻭ ﮐﯿﻨﺒﺮﮮ ﮈﺍﻧﺲ ﮐﺎ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﻤﻮﻧﮧ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﺩﻝ ﺗﮭﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﺌﮯ، ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﮔﻮﺭﯼ ﻋﯿﺪ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﺗﻮ ﮐﺮﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﺮﺳﻤﺲ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮮ ﺗﺰﮎ ﻭ ﺍﺣﺘﺸﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺎﺗﯽ ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺘﮯ " ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﻭﻗﺖ ﮔﺰﺭﺗﺎ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ، ﺑﭽﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﻧﮯ ﺧﺘﻨﮯ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻇﻠﻢ ﮨﮯ، ﺑﯿﭩﺎﺟﯽ ﮐﮭﺴﯿﺎﻧﯽ ﺳﯽ ﮬﻨﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﻮﻟﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ'' ﮈﺍﻧﺲ، ﻣﯿﻮﺯﮎ، ﻓﻠﻤﯿﮟ، ﮐﺎﮎﭨﯿﻞ ﭘﺎﺭﭨﯿﺰ، ﮐﺮﺳﻤﺲ، ﺳﺮﻋﺎﻡ ﺑﻮﺱﻭﮐﻨﺎﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﻠﭽﺮ ﮐﺎ ﺣﺼﮧ ﺑﻨﮯ، ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﯼ ﮨﻮﺗﮯ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ، ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺳﮩﯿﻠﯿﺎﮞ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ۔ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﯽ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭩﯿﮟ ﭘﮩﻦ ﭘﮩﻦ کر ﺷﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﮐﻠﻤﮧ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ، ﺑﮭﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﯿﮟ، ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻤﻌﮧ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﻨﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﻮ ﮔﻮﺭﯼ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﺳﮯ ﭼﭙﮏ ﺑﯿﭩﮭﺘﯽ، ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺑﺎﺭ ﺗﻮ ﺟﮕﮧ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﻧﮧ ﮐﯿﺎ ﭘﻮﭼﮭﻨﮯ ﭘﺮ ﺻﺮﻑ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻣﻠﺘﺎ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ" ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻡ ﮔﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﻧﮑﻠﺘﯽ ﺗﻮ ﺟﯿﻨﺰ ﺷﺮﭦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﭘﭩﮧ ﺳﺎ ﮈﺍﻝ ﻟﯿﺘﯽ۔ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﮨﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﮐﮧ "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ"!!!!!! 🔷"ﺍﺳﻼﻣﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ" ﺑﮭﯽ ﻣﻐﺮﺏ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﻨﯽ ﻣﺰﺍﺝ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺑﯿﺎﮦ ﻻﺋﮯ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺩﮬﺮ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﺷﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﻗﺒﻮﻝ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ، ﻗﻮﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﻋﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺮﺩﯾﺴﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮭﺎ، ﺍﺗﻨﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺍﺗﻨﯽ ﭼﭩﯽ.. "ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺟﻤﮩﻮﺭﯾﺖ"!! ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ جرأت ﻧﮧ ﮐﯽ. ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮐﮧ ﻟﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﯽ ﮔﻮﺭﯼ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ. ﺍﺱ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﺝ ﺗﻮﮌﮮ، ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﻮﮌﮮ، ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺍﻧﺪﺭ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﻗﻮﻡ ﺧﻮﺵ ﮨﯽ ﺭﮨﯽ ﮐﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ!! ﻣﻌﺎﺷﺮﺕ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﺮ ﯾﮧ ﮨﺮ ﺍﺱ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﻧﺎﭼﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺟﻮ ﮐﮧ ﻏﯿﺮ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﺳﺘﻮﺭ ﺗﮭﺎ. ﻟﻮﮒ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ، ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺮ ﺷﺮﮎ ﻭ ﮐﻔﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺟﻮﺍﺯ ﺩﯾﺎ، ﮨﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﮐﻮ ﺍﻗﺘﺪﺍﺭ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺩﯾﺎ، ﺩﯾﻦ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﺑﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ، ﮐﻠﻤﮯ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﻋﺎﻡ ﮐﯿﺎ، ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻣﺤﻠﮯ ﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ!! ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﻣﺎﮞﺟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﮐﺮ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﻠﻤﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ھماری بے راہ روی ﮐﻠﻤﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺲ ﻣﯿﮟ بہت ﮐﭽﮫ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﯽ. ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﮨﮯ... اپنی زندگی میں اسلام لانے کی کوشش کیجئے ورنہ ھم نے بھی بس کلمہ ہی پڑھا ھوا ہے. _____📝📝📝_____ منقول ۔ انتخاب اسلامک ٹیوب پرو ایپ ۔

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

اسرائیلی مظالم کی ایک جھلک:

اسرائیلی مظالم کی ایک جھلک:

اقوام متحدہ کے ۱۹۴۸ء کے منظور کردہ نقشے کے مطابق نا جائز ریاست اسرائیل کا رقبہ پانچ ہزارتین سو (۵،۳۰۰) مربع میل تھا۔ لیکن اسرائیل نے رفتہ رفتہ تئیس ہزار (۲۳٬۰۰۰) مربع میل پر قبضہ کر لیا۔ اور اس پر بس نہیں عظیم تر اسرائیل کے نقشے میں مصر ، عراق ، شام ، سعودیہ عرب حتی کہ مدینہ منورہ، خیبر ، تک کو اسرائیل کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ یہودیوں کے فلسطین میں ظلم و تشدد کے پیش نظر مظلوم فلسطینی عوام نے اپنے دفاع کے لیے تنظیمیں تشکیل دیں۔ (۱) فتح تنظیم (۱۹۵۷ء) (۲) - تنظیم آزادی فلسطین (۱۹۶۴ء)(۳)-حماس [۱۹۸۷ء] سابقہ دو تنظیموں کی کارکردگی سے مایوسی کے بعد شیخ احمد یاسین نے ۱۹۸۷ء میں حماس کی بنیاد رکھی۔ ۲۰۰۴ء میں شیخ احمد یاسین کو شہید کر دیا گیا۔ ۲۰۰۷ء میں حماس نے فلسطینی عوام کا بھر پور اعتماد حاصل کر کے غزہ کے انتخابات میں کامیابی پائی۔ تب سے اب تک اسرائیل نے غزہ کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ: ”غزہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔“ یہود/اسرائیلی جب چاہتے ہیں اہل غزہ کا پانی بجلی سوئی گیس، یہاں تک کہ خوراک ، ادویات تک بند کر دیتے ہیں۔ غزہ کے ایک جانب سمندر، ایک طرف مصر اور ایک طرف خود اسرائیل ہے۔ سمندر بھی اسرائیلی قبضے میں ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اسرائیل نے پچاسی فیصد پینے کا پانی اپنے قبضے میں کیا ہوا ہے اور صرف پندرہ فیصد پانی فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔ وہ بھی جب چاہتا ہے بند کر دیتا ہے۔ اس وقت تقریباً ۸۰ لاکھ یہودی ظلماً فلسطین پر قابض ہیں، جبکہ ۸۰ لاکھ ہی فلسطینی ہجرت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، جن میں ۴۵ لاکھ سے زائد تعداد مہاجر کیمپوں میں مقیم ہے۔ ۲۰۱۸ ء کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند سال سے اسرائیل اوسطاً ۲۸۵/فلسطینیوں کو بلا وجہ سالانہ شہید کرتا ہے۔ اور یہ عام ایام کی بات ہے، جن ایام میں فضائی بمباری جاری ہو اُن دنوں شہدا کی تعداد یومیہ بیسیوں اور سیکڑوں میں ہوتی ہے۔ اکتوبر ۲۰۰۱ ء تا جنوری ۲۰۰۵ء تک ساڑھے چھ سو سے زائد فلسطینیوں کے گھر بلا وجہ راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر دیئے گئے ۔ میں تبدیل کر دیئے گئے ۔ سن ۲۰۰۰ ء تا سن ۲۰۰۶ ء کی رپورٹس کے مطابق خواتین کو اسرائیلی چوکیوں پر ایسے وقت میں قصداً روکا گیا، جب ولادت کا وقت قریب تھا، اور ۶۸ خواتین نے چیک پوسٹوں پر بچے جنم دیئے ۔ جن میں سے ۱۴ خواتین اُسی موقع پر شہید ہوئیں ۔ سن ۱۹۶۸ء کی لڑائی میں ساڑھے تین لاکھ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔