
یاوَت میں مسلم مخالف تشدد: سوشل میڈیا پوسٹ سے بھڑکا فساد
پونے کے یاوَت میں فرقہ وارانہ تشدد: سوشل میڈیا پوسٹ سے بھڑکا فساد واقعہ کا خلاصہ یکم اگست 2025 کو پونے کے داوند تحصیل کے یاوَت گاؤں میں ایک سوشل میڈیا پوسٹ نے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دی۔ ایک نوجوان نے واٹس ایپ پر ایک متنازعہ اسٹیٹس لگایا، جس میں مدھیہ پردیش کے ایک مبینہ عصمت دری کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے قابل اعتراض تبصرہ کیا گیا تھا۔ پوسٹ میں ایک بچے کی علامتی تصویر کے ساتھ لکھا تھا: ’’ایک اور پنڈت، اب بولو بھگوا دھاری۔ سوچو، سوشل میڈیا کے دور میں یہ حال ہے تو 50 سال پہلے کیا ہوتا؟‘‘ یہ پوسٹ وائرل ہوئی اور گاؤں، جو پہلے ہی 26 جولائی کو چھترپتی شیواجی مہاراج کی مورتی کی بے حرمتی سے کشیدہ تھا، فسادات کی لپیٹ میں آ گیا۔ مشتعل ہجوم نے ایک مسجد پر پتھراؤ کیا، ایک موٹر سائیکل اور بیکری کو نذرِ آتش کیا، اور دیگر املاک کو نقصان پہنچایا۔ پونے پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرتے ہوئے حالات پر قابو پایا، پوسٹ کرنے والے نوجوان سمیت 17 افراد کو حراست میں لیا، اور 500 سے زائد کے خلاف پانچ ایف آئی آر درج کیں۔ دفعہ 144 نافذ کر کے انٹرنیٹ سروس معطل کر دی گئی۔ سیاسی ردعمل نائب وزیراعلیٰ اجیت پوار اور وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس نے گاؤں کا دورہ کیا اور امن کی اپیل کی۔ فڑنویس نے کہا: ’’ایسی پوسٹس جان بوجھ کر کشیدگی پھیلاتی ہیں۔ سخت کارروائی ہوگی۔‘‘ مہاراشٹر کانگریس نے اسے ریاستی حکومت کی ناکامی قرار دیا۔ بی جے پی ایم ایل اے راہل کل نے بھی مقامی لوگوں سے صبر کی تلقین کی۔ مسلم مخالف تشدد اور جھوٹے الزامات یہ واقعہ بھارت میں مسلم کمیونٹی پر بڑھتے ہوئے حملوں اور جھوٹے الزامات کا ایک اور مظہر ہے۔ 2023 میں سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم کی رپورٹ کے مطابق، فرقہ وارانہ فسادات میں کمی آئی، لیکن موب لنچنگ کے واقعات 15 سے بڑھ کر 21 ہوئے، جن میں 16 متاثرین مسلمان تھے۔ ہندوتوا گروپوں کی جانب سے ’’لینڈ جہاد‘‘ اور ’’لو جہاد‘‘ جیسے بے بنیاد الزامات نے نفرت کو ہوا دی، جو سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلتی ہے۔ یاوَت میں مسجد پر حملہ اور مسلم دکانداروں کی املاک کی تباہی اسی تعصب کی عکاسی کرتی ہے۔ مقامی مسلم رہنما نبیلال شیخ نے کہا: ’’ہم نے ہمیشہ ہندو پڑوسیوں کے ساتھ ہم آہنگی سے رہا، لیکن یہ واقعات ہمارے اعتماد کو توڑ رہے ہیں۔‘‘ نتیجہ یاوَت کا واقعہ سوشل میڈیا کی طاقت اور اس کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے خطرات کی تلخ یاد دہانی ہے۔ ایک پوسٹ نے گاؤں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کی فوری کارروائی سے حالات کنٹرول ہوئے، لیکن مسلم مخالف تشدد اور جھوٹے الزامات کی بڑھتی لہر تشویش ناک ہے۔ انتظامیہ کو سوشل میڈیا کی نگرانی کے لیے سخت قوانین بنانے اور سماجی اتحاد کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، تاکہ ایسی تقسیم دوبارہ نہ ہو۔ ماخذ: ٹائمز آف انڈیا، یکم اگست دی ہندو، 2 اگست بزنس اسٹینڈرڈ، 2 اگست سینٹر فار اسٹڈی آف سوسائٹی اینڈ سیکولرزم، جنوری ایکس پوسٹس، اگست