ایک نوجوان کی استقامت

سمرقند کے اسی سفر میں ایک عالم ایک نوجوان کو اس عاجز(شیخ پیر ذو الفقار احمد نقشبندی) سے ملانے کے لیے لائے اور بتایا کہ یہ وہ خوش نصیب نو جوان ہے جو روسی انقلاب کے زمانے میں پانچ مرتبہ اذان دے کر کھلے عام نمازیں پڑھتا تھا۔ یہ سن کر اس عاجز کو حیرت ہوئی اور پوچھا: وہ کیسے؟ اس نوجوان نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا۔ ہم نے دیکھا تو اس کی پیٹھ کے ایک ایک انچ جگہ پر زخموں کے نشانات موجود تھے ۔ اس عاجز نے پوچھا: یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے اپنی داستان بیان کرنا شروع کی ۔ وہ کہنے لگا: جب میں نے پہلی مرتبہ اذان دی تو پولیس والے مجھے پکڑ کر لے گئے اور خوب مارا۔ میں جان بوجھ کر اس طرح بن گیا جس طرح کوئی پاگل ہوتا ہے۔ وہ جتنا زیادہ مارتے میں اتنا ہی زیادہ ہنستا ۔ ایک وقت میں کئی کئی پولیس والے مارتے مارتے تھک جاتے ، مگر میں اللہ کے نام پر مار کھاتے کھاتے نہ تھکتا ۔ مجھے بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے ، مگر میں نے برداشت کر لیے۔ مجھے کئی کئی گھنٹے برف پر لٹایا گیا، مجھے پوری پوری رات الٹا لٹکایا گیا ، مجھے گرم چیزوں سے داغا گیا، میرے ناخن کھینچے گئے، مگر میں اس طرح محسوس کرواتا جیسے کوئی پاگل ہوتا ہے۔ میں جان بوجھ کر پاگلوں والی حرکتیں کرتا تھا۔ پولیس والوں نے ایک سال میری پٹائی کرنے کے بعد مجھے پاگل خانے بھجوا دیا۔ وہاں بھی میں نے ایک سال اسی طرح گزارا جتی کہ ڈاکٹر نے لکھ کر دے دیا کہ یہ شخص پاگل ہے، اس کا ذہنی توازن خراب ہے، یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا ، یہ اپنے آپ میں ہی مگن رہتا ہے۔ لہذا اب اس کو دوباره گرفتار نہ کیا جائے ۔ چنانچہ اس ڈاکٹر کی رپورٹ پر مجھے آزاد کر دیا گیا۔ جب میں باہر آیا تو میں نے ایک جگہ پر چھوٹی سی مسجد نما جگہ بنائی ، میں وہیں دن میں پانچ مرتبہ اذانیں دیتا اور پانچ نمازیں کھلے عام پڑھا کرتا تھا۔ اس عاجز نے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا: اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں ہوتی ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد یہ عاجز اس نوجوان کے چہرے کو بار بار دیکھتا اور اس کی ثابت قدمی پر رشک کرتا رہا۔ ازل سے رچ گئی ہے سر بلندی اپنی فطرت میں ہمیں کٹنا تو آتا ہے مگر جھکنا نہیں آتا (کتاب : ایمان و یقین کے تقاضے۔ صفحہ نمبر : ۱۴۹ - ۱۵۰ از افادات: حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی۔ انتخاب: اسلامک ٹیوب پرو ایپ۔)

ارے بھائی!

اگر آپ ہزاروں کتابیں، نعتیں، تصاویر، ویڈیوز، اخبار، مضامین، قبلہ نما، اوقات نماز، اسلامک گھڑی اور بہت کچھ آسانی کے ساتھ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو بس ہمارے Islamic Tube ایپ کو پلے سٹور سے انسٹال کرو، اور بالکل مفت اور آسانی کے ساتھ اسلامک مواد حاصل کرو

ڈاؤن لوڈ کریں
Image 1

کراماتی مشین

کراماتی مشین

یہ کہانی شام میں پیش آئی، جسے ایک درزی کے مالک نے بیان کیا ہے ۔ کہانی کے راوی کہتے ہیں : میں ایک درزی کے کارخانے کا مالک تھا ۔ میری ایک ہمسائی تھی جس کا شوہر فوت ہو چکا تھا اور اس نے تین یتیم بچے چھوڑے تھے۔ ایک دن وہ میرے کارخانے میں آئی اور کہنے لگی: "اے فلاں، میرے پاس ایک سلائی مشین ہے جس پر میرا شوہر کام کرتا تھا اور ہم اس پر کام کرنا نہیں جانتے۔ میں چاہتی ہوں کہ ان یتیم بچوں کی کفالت کروں، کیا میں اس مشین کو آپ کے کارخانے میں لا کر آپ کو کرایہ پر دے سکتی ہوں تاکہ مجھے کچھ آمدنی ہو اور میں اپنے خاندان کا پیٹ پال سکوں؟" میں اس کی بات سن کر شرمندہ ہو گیا (اور شرم کبھی بھی برائی کی طرف نہیں لے جاتی)۔ میں نے کہا: "بہن، بالکل! آپ اسے میرے پاس بھیج دیں۔" جب اس نے مشین لائی تو میں نے دیکھا کہ وہ بہت پرانا ماڈل تھا اور کسی کام کا نہیں تھا۔ لیکن میں اس عورت کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: "بہن، آپ اس مشین کا کرایہ کیا لینا چاہتی ہیں؟" اس نے کہا : "تین ہزار لیرہ" ۔۔۔ اور یہ واقعہ جنگ سے بیس سال پہلے کا ہے۔ میں نے اسے تین ہزار لیرہ دیئے اور مشین کو ایک کونے میں رکھ دیا کیونکہ وہ کسی کام کی نہیں تھی۔ لیکن میں نے اس کا دل نہیں توڑا۔ ہم دس سال تک اسی حالت میں رہے ۔ ہر مہینے ام جمیل آتی اور مشین کا کرایہ لیتی، جبکہ مشین کارخانے کے ایک کونے میں پڑی رہتی اور کوئی کام نہیں کرتی تھی۔ دس سال بعد ، ہم نے چھوٹے کارخانے سے ایک نئے کارخانے میں منتقل کیا جو قصبے کے کنارے پر تھا۔ جب ہم سامان منتقل کر رہے تھے تو میں نے کہا: "ام جمیل کی مشین بھی لے جاؤ۔" کارخانے کی منیجر نے کہا: "سر، ہمیں ام جمیل کی مشین کی کیا ضرورت ہے؟ کیوں اسے لے جائیں؟" میں نے کہا: "یہ پوچھنا تمہارا کام نہیں، بس اسے لے جاؤ۔" دن اور سال گزرتے گئے ۔ پھر جنگ شروع ہوگئی۔ اور خدا کی قسم، اس علاقے میں سب کچھ تباہ ہوگیا سوائے میرے کارخانے کے۔ جنگ کی وجہ سے، ام جمیل سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ ہم نے بہت کوشش کی مگر اس کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ ہر بار جب ہم اس کے نمبر پر فون کرتے تو وہ بند ہوتا۔ میری کارخانے کی منیجر مجھے چھوڑ کر یورپ چلی گئی۔ دو ماہ بعد، اس نے مجھے فون کیا اور کہا: "میں نے ایک خواب دیکھا ہے جناب اور میں چاہتی ہوں کہ آپ اسے سنیں۔" میں نے پوچھا: "وہ کیا خواب ہے؟" اس نے کہا: "میں نے خواب میں سنا کہ ایک آواز کہہ رہی تھی : 'فلاں کو کہو کہ ام جمیل کی مشین کی برکت سے ہم نے تمہارے کارخانے کو اس جنگ میں محفوظ رکھا۔'" کہانی کا راوی کہتا ہے: "میری جلد کانپ گئی اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے کہا: 'الحمدللہ'۔ اور خدا کی قسم، میرے کارخانے سے ایک سوئی بھی غائب نہیں ہوئی، حالانکہ اس علاقے میں سب کچھ تباہ و برباد ہوگیا تھا۔" 🎯 *عبرت :* نیکی کے کام ہر برائی اور نقصان سے بچاتے ہیں ۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صحیح وعدہ فرمایا ہے : _اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ مَنۡ اَحۡسَنَ عَمَلًا_ ﴿ۚسورة الكهف : آیت ۳۰﴾ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ، تو یقینا ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے ۔